علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
عبارتیں شربتِ روح افزاء کا کام کرتی ہیں۔یہاں جو علماء بیٹھے ہوئے ہیں ان سے پوچھ لو، میں نے تمام تفسیری اقوال عربی کے نقل کیے ہیں۔ اللہ نے عربی کی عبارات نقل کرنے کے متعلق میرا حافظہ قوی کر دیا۔ جب اﷲ تعالیٰ کسی کے بچے کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں تو شاہی تربیت کے لیے ماں باپ کی غذا بڑھا دیتے ہیں۔ اگر کسی غریب کے بیٹے کو بہت بڑا انجینئر بنانا ہے تو ماں باپ کی روزی بڑھا دیتے ہیں اور اس کو اچھی غذا ملتی ہے۔ ایسے ہی جس کی آغوشِ تربیت میں کسی بڑی شخصیت کی تربیت کرانی ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ شیخ کی بھی روحانی غذائیں بڑھا دیتے ہیں۔ جب جسمانی غذاؤں کے وہ ربّ العالمین ہیں تو روحانی غذاؤں کے بھی وہ ربّ العالمین ہیں۔ لہٰذااﷲ تعالیٰ ان طالبین کی قسمتوں سے، محدثین کی قسمتوں سے، علماء کی قسمتوں سے مضامین بھی ویسے ہی دلِ شیخ پر عنایت فرماتے ہیں کہ ان کے دل میں بھی سیرابی آجاتی ہے اور ان کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ الحمد ﷲ! ہمارا پیر علم کی روشنی میں تصوف کو سکھا رہا ہے ورنہ پھر وہ مزہ نہیں آتا۔ آج بڑے بڑے علماء جب اس فقیر سے عربی عبارت سنتے ہیں تو مطمئن ہوجاتے ہیں ورنہ اگر صرف اردو میں کہتا تو ان کی تشفی نہ ہوتی، آپ لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حافظہ بھی قوی کردیا ورنہ پہلے میرا حافظہ اتناقوی نہ تھا کیوں کہ بڑے علماء سے واسطہ پڑنا تھا جن کو معمولی غذائے علم سے تشفی نہ ہوتی اﷲ تعالیٰ نے ان علماء کی قسمتوں سے میرا حافظہ بھی قوی کردیا اور میرے علم میں اﷲ نے برکت ڈال دی۔ بڑے بڑے علماء نے مجھ سے کہاکہ ہم لوگ جاہلوں میں اس طرح عربی نہیں پیش کرتے جیسے آپ ہم جیسے علماء میں پیش کرتے ہیں، اور صدر مدرس ہردوئی نے کہا کہ تم مولویوں میں فر فر عربی عبارات نقل کرتے ہو، ذرا بھی نہیں ڈرتے کہ کہیں زیر زبر کی کوئی غلطی ہوجائے اور فاعل کو مفعول اور مفعول کوفاعل بنادو۔ میں نے کہا کہ میں جو کچھ بولتا ہوں اس کے سارے قواعد میرے ذہن میں ہوتے ہیں اور میں نے فنِ نحو پر ایک کتاب بھی لکھی ہے ’’تسہیل قواعد النحو‘‘اور میں نے عربوں کو پڑھایا ہے، جب میں نے عدد، تمیز وغیرہ بیان کیے تو الحمد للہ! عربوں نے میرا شکریہ ادا کیا، اور یہ کرامت میرے بزرگوں کی ہے۔ اس وقت ایک بڑا پیارا شعر یاد آگیا ؎چاند تارے میرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے