علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
ہاتھی کے بچے کا گوشت مت کھانا۔ ان کو کشف ہوا تھا کہ وہ راستہ بھول جائیں گے اور ان کو بھوک لگے گی۔ بزرگ کو خطرہ محسوس ہوا کہ بھوک کی شدت سے کہیں وہ ہاتھی کے بچے کا گوشت نہ کھا لیں۔ کشف اﷲکے ہاتھ میں ہے، بندے کے اختیار میں نہیں، اگر اختیاری ہوتا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہوجاتا جو قریب کے ایک کنویں میں موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ کشف انبیاء کے اختیار میں بھی نہیں ہے، یہ دلیل ہے کہ کشف اﷲ کی طرف سے ہوتا ہے، لہٰذا جب اﷲ کا فضل ہوا تو ہزاروں میل دور سے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبو حضرت یعقوب علیہ السلام کو آگئی۔ بات چل رہی تھی دس آدمیوں کی کہ وہ جنگل میں راستہ بھول گئے، تو انہوں نے کہا کہ ہم ہاتھی کا گوشت نہیں کھائیں گے، کیوں کہ ہمارے بزرگ نے منع فرمایا ہے۔ کئی دن بعد جب ان کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی اور وہ بھوک سے بدحواس ہوگئے تھے، ان کی نظر ہاتھی کے ایک بچے پر پڑی۔ نو آدمیوں نے کہا کہ ہم اپنے بزرگ کی بات پر عمل کرتے ہیں، انہوں نے ہمیں گوشت کھانے سے منع کیا تھا، لیکن دسویں آدمی نے کہا کہ ارے چھوڑو! ہمیں بھوک لگی ہے، چناں چہ اس نے تلوار سے اس بچے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھالیا۔ رات کو اس بچے کی ماں ہتھنی آگئی، جب اس نے دیکھا کہ بچہ نہیں ہے تو بچے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی، اس نے دیکھا کہ ایک جگہ دس آدمیوں کی جماعت سوئی ہوئی ہے، ہتھنی نے سب آدمیوں کا منہ سونگھا، جس نے اس کے بچے کا گوشت کھایا تھا وہ درمیان میں سویا ہوا تھا کہ اگر ہاتھی آ بھی گیا تو پہلے دوسروں کو پکڑے گا اور اس کے شور کی وجہ سے میں جاگ جاؤں گا، لیکن ہتھنی نے باری باری سب کا منہ سونگھا، جب درمیان والے کا منہ سونگھا جس نے گوشت کھایا تھا تو ہتھنی نے اپنے بچے کے خون کی بو پہچان لی، اس نے اس آدمی کی ایک ٹانگ سونڈ میں پکڑی اور دوسری ٹانگ اپنے پیر کے نیچے دبا کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ اس واقعے کو نصیحت کے طور پر فرماتے ہیں کہ دیکھو! اﷲ کے حق میں اگر کوتاہی ہوجائے تو رونے سے اور معافی مانگنے سے وہ معاف کردے گا، لیکن اگر اس کے اولیاء کو ستایا تو بعض اوقات وہ اپنے اولیاء کے معاف کرنے پر بھی معاف نہیں کرتا ؎