علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً 32؎کہ بالطف حیات تو میری فرماں برداری میں ہے، جبکہ تم بالطف حیات اِعْرَاضْ عَنِ الذِّکْرْ میں تلاش کرتے ہو۔ میری یاد سے غفلت اورنافرمانی میں تلاش کرتے ہو، حالاں کہ خالقِ زندگی کا اعلان ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا 33؎میں اپنے نافرمانوں کو تلخ زندگی دیتا ہوں۔ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے ایمان کو ٹٹولے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہماری نافرمانی میں تم کہاں لُطفِ زندگی تلاش کرتے ہو؟ نافرمانی سےتمہاری زندگی تلخ کردی جائے گی۔ مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا شعر ہے جو مظاہرالعلوم سہارن پور میں محدّث تھے ؎عشقِ بتاں میں اسؔعد کرتے ہو فکرِ راحت دوزخ میں ڈھونڈتے ہو جنت کی خواب گاہیں یہ شعر کیا ہے پورا وعظ ہے۔ دیکھو قرآنِ پاک کی روشنی میں تزکیۂ نفس کا ایک شعبہ قائم ہوگیا جس کا نام ہے طہارتِ قلوب عقائدِ باطلہ سے اور غیر اللہ میں مشغول ہونے سے۔ تزکیۂ نفس کی دوسری تعریف ہے: وَیُطَھِّرُ نُفُوْسَھُمْ عَنِ الْاَخْلَاقِ الرَّذِیْلَۃِ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کے نفوس کو پاک کرتے ہیں بُرے بُرے اخلاق سے مثلاً بدنظری، عشق بازی، کینہ، بخل، تکبر اور ریا جیسے تمام اخلاقِ رذیلہ سے آپ صحابہ کے قلوب کو پاک کرتے ہیں۔ اور تزکیۂ نفس کی تیسری تعریف ہے: وَیُطَھِّرُ اَبْدَانَہُمْ عَنِ الْاَنْجَاسِ وَ الْاَعْمَالِ الْقَبِیْحَۃِ 34؎ _____________________________________________ 32؎النحل: 97 33؎طٰہٰ:124 34؎التفسیرالمظھری :166/2 ، بلوجستان بک دبو