ایک نے جو ضلع بستی میں رہتا تھا اسلام قبول کیا۔ ایک روزنامچہ کا حوالہ بھی دیا ہے جو فتح خان مرحوم کے کتب خانہ میں تھا۔ فتح خان اعظم گڑھ میں ایک نامور تحصیل دار گزرے ہیں جن کے نام کی ایک سر اجیل خانہ سے تھوڑی دور پر ہے۔ ان کے کتب خانہ میں راجہ بھوج کا ایک روزنامچہ تھا جس کا سنسکرت سے فارسی میں فیضی نے ترجمہ کیا تھا۔ اسی کو کسی عالم اور محقق نے دیکھ کر مولوی عبدالعزیز مؤلف ’’بشارتِ احمدیہ‘‘ سے واقعہ بیان کیا تھا کہ راجہ بھوج نے شق القمر کے ما فوق العادت مظاہرۂ قدرت کو دیکھا تھا اور اسی کی صبح اپنے عالموں اور منجموں نے راجہ سے کہا کہ ہمارے حساب سے عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوا ہے اس کا دین سب دینوں کی تصدیق کرے گا اور تمام عالم میں پھیلے گا۔ راجہ نے اپنے یہاں سے کچھ آدمی عرب روانہ کیے۔ یہ لوگ سنسکرت کے صحیفوں کے عالم اور ان علامات سے واقف تھے جو محمد عربی کی پاک اور برگزیدہ شخصیت کے متعلق ان کے یہاں مشہور تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اور ہندوستان میں آمد و رفت تاجروں اور اشیائے نادرہ کے اِدھر سے اُدھر لے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مبحث پر پارسال جو مضمون مولانا سیّد سلیمان ندوی نے الٰہ آباد کی ہندوستانی اکاڈیمی میں پڑھا تھا اس سے بہت مدد ملتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اور عرب میں کس درجہ ذرائع آمد و رفت کشادہ تھے۔ مختصر یہ کہ جو لوگ ہندوستان سے عرب میں گئے تھے وہ راجہ بھوج کے پاس بعثتِ حضور رحمۃ اللعالمین، قائم کنندہ مساوات و مواخاتِ عالم، بانی ۔ُحر۔ّیتِ بنی نوع انسان کی خوش خبری لے کر آئے اور مسلمان ہو کر آئے یہاں تک کہ راجہ بھی مسلمان ہوا۔
اسی طرح لالہ ہنسراج مشہور آریہ کا رکن اور فاضل ہندو ادیت و محقق نے جب موپلوں کی شورش مالا بار میں ہوئی تھی تو تحقیق حالات کے لیے وہاں گئے تھے۔ وہاں جا کر انھیں یہ خیال آیا کہ اس ساحل پر اسلام کیسے آیا اور کس طرح اندرونِ ملک پھیل گیا۔ مختلف توجیہوں اور نظریوں کے سامنے آنے کے بعد انھیں ایک ہندو مندر میں مالا بار کے پرانے راجہ کی لکھی ہوئی تاریخ ملی جو سنسکرت میں تھی۔ لالہ صاحب نے اس کو بغور پڑھا راجہ نے اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ یوں لکھا تھا کہ میں نے ایک شب چاند کو دوٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ مجھ پر ہیبت طاری تھی۔ میں نے اپنے یہاں کے پنڈتوں اور نجومیوں کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ ان لوگوں نے کہا کہ عرب میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے اس کا دین، دنیا اور دین کی نجات دلائے گا۔ چوںکہ عرب لوگ ساحل مالا بار پر آتے جاتے اور اشیائے نادرہ کی تجارت کرتے تھے، اس لیے راجہ نے عربوں سے بلا کر پیغمبرِ عرب کے شمائل اور امتیازات دریافت کیے۔ بالآخر اس نے ایک دربار کیا اور اپنے سرداروں اور رعایا کے نمایندوں سے کہا کہ میں ایک وفد عرب بھیج رہا ہوں۔ اگر یہ لوگ وہاں سے پیغمبرِ عرب کی تصدیق اور توثیق کرکے آئیں گے تو میں مسلمان ہوجاؤں گا اور تم لوگ بھی وعدہ کرو کہ اس وقت مسلمان ہوجاؤ گے۔