دعوت دے رکھی ہے کہ {قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ}1 (1 آل عمران: ۶۴) یعنی اے میری کتابوں کے ماننے والو! اے الہامی کتابوں پر ایمان رکھنے والو! آؤ میں تم کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ باتیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں‘‘۔ ہم دونوں ما بہ الاشتراک باتوں پر متفق و متحد ہوجائیں۔ اتفاق و اتحاد کا یہ مسئلہ ہندوستان کی موجودہ حالت میں جس قدر ضروری ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ کانگریس، خلافت، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا وغیرہ جملہ تحریکیں ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کرنے کے درپے ہے، مگر وہ سیاسی حقوق کو کہا ہے۔ ہم اس سمجھوتہ کے خلاف نہیں ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اگر سمجھوتہ کا کوئی مشترکہ محاذ مل جائے تو وہ ہر حالت میں لبیک وسعدیک کہنے کے قابل ہے میں خود اسی مشترکہ محاذ کی تلاش میں ہوں۔ مگر میری جستجو سیاسیات کو لے کر کانگریس، خلافت یا لیگ کے پیلٹ فارم تک نہیں پہنچتی، بلکہ وہ خالص دینی مسائل کو مذہبی اور تبلیغی اور اشاعتی پلیٹ فارم تک محدود ہے۔ میں اسی پلیٹ فارم سے یہ کوشش کر رہا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوئی مشترکہ مذہبی محاذ مل جائے۔ اور میں نہایت مسرت و اطمینان کے ساتھ آج اس بات کا اعلان کروں گا کہ مجھے یہ مشترکہ محاذ مل گیا ہے اور اگر ہندو اور مسلمان اس مشترکہ محاذ پر آجائیں کہ ان دونوں کا مذہب اُن کی مخالفت نہیں بلکہ مدد کرے گا۔ اس جدوجہد اور دعوتِ اشتراک میں ہمیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ کون سا فریق اس مشترکہ محاذ پر آنے کے لیے تیار اور کون سا فریق مخالف ہے۔ میں اس مشترکہ محاذ کے متعلق آپ حضرات کو زیادہ دیر تک پریشان کرنا نہیں چاہتا، بلکہ میں بہت جلد اس کی تشریح کروں گا، تاکہ آپ کا قیمتی وقت زیادہ خرچ نہ ہو۔
آپ جان سکتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے مذہب کی بنا قرآن مجید، حدیث پاک، فقہ، یا آئمہ و مجتہدین کے اجتہادات و قیاسات وغیرہ ہیں، اگر میں نے ۲۲؍ کروڑ ہندوؤں کے ساتھ ان مذہبی معاملات میں جن کے بارے میں وہ سات کروڑ مسلمانوں کے ساتھ بر سر پر خاش رہتے ہیں مذہب کی بنا پر کوئی سمجھوتہ کرنا ہو تو میں اُن سے یہی کہوں گا کہ اے ہندوؤ! جن معاملات میں تم ہمارے ساتھ جھگڑا کرتے ہو کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ ان تمام معاملات کے متعلق قرآن پاک، حدیث ۔ّمقدسہ یا ہماری کسی فقہ کی کتاب کو بیچ میں رکھ کر ہمارے ساتھ فیصلہ کرلو۔ میں یقین اور شوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کے ۲۲ کروڑ ہندوؤں یا آریوں میں سے ہمیں ایک بھی ہندو یا آریہ ایسا نہیں ملے گا جو میری اس شرط کو ماننے کے لیے تیار ہو، بلکہ وہ یہی جواب دیں گے کہ تمہاری جن کتابوں پر ہمارا ایمان ہی نہیں ہے ہم ان کی بات کو اپنے لیے حکم کیسے مان سکتے ہیں۔ بہت اچھا صاحب! اب ہم تمہارے سامنے اپنی دینی کتب کو پیش نہیں کرتے، لیکن اب ہم تم سے ایک دوسرا سوال کرتے ہیں کہ اگر اُمورِ متنازعہ فیہ کا فیصلہ ہماری کسی کتاب کی بنا پر کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو چلو ہم یہ اعلان