عہد تک نازل ہوئیں کسی ایک نے اس کی ایک ادنیٰ سورۃ کا بھی مقابلہ نہ کیا، یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کے اندر اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں جس قدر علم بڑھتا جاتا ہے اور حقائق پر عبور ہوتا ہے اسی قدر قرآن کے ساتھ بھی ان کا تعلق بڑھتا جاتا ہے اس کی تعظیم میں زیادتی ہوتی ہے، اس کے عجائبات کے ساتھ ان کی دلچسپی ترقی کرتی جاتی ہے، آیات کا اقتباس کرتے ہیں، کلام کی آرایش ان آیتوں سے بڑھاتے ہیں جس قدر اُن کا پایہ رفیع ہوتا ہے اور خیالات میں شستگی اور شگفتگی ہوتی ہے۔ اسی قدر اپنی رائے اور خیال کا مدار آیاتِ قرآنی کو ٹھہرانے میں کوشش کرتے ہیں۔
ان لوگوں کے سینے قرآن کی محبت سے معمور ہیں، دل سے اس کو مقدس مانتے ہیں، دوسری قوموں کو جو کتابیں یا شریعتیں ملی ہیں اُن کی نسبت نہ اُنھیں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے نہ رشک آتا ہے، اس لیے کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ رشکی کتابیں ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔ اس کی فصاحت و بلاغت انھیں سارے جہان کی فصاحت و بلاغت سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔ یہ واقعی بات ہے اور اس کی واقعیت کی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے انشا پردازوں اور شاعروںکے سر اس کے آگے جھک جاتے ہیں۔ اس کے عجائبات جو روز بروز نئے نئے نکلتے آتے ہیں اور اُس کے اسرار جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسلمان شعراء اور نثار، ان کو دیکھ کر سجدہ کرنے لگتے ہیں، قیامت تک کے لیے اس کو سرمایۂ ناز جانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فصیح کلام اور دقیق معانی کا یہ ایک بحرِ۔ّ مواج ہے۔
ڈاکٹر موریس ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
کوئی چیز عیسائیانِ روم کو اس ضلالت و غوایت کی خندق سے جس میں وہ گرے پڑے تھے نہیں نکال سکتی تھی، بجز اس آواز کے جو سر زمینِ عرب میں غارِ حرا سے آئی۔ اعلاء کلمۃ اللہ جس سے یونانی انکار کرتے جاتے تھے، اسی آواز نے دنیا میں کیا اور ایسے عملی پیرایہ میں کیا جس سے بہتر ممکن نہ تھا۔ اور ایک ایسا سیدھا سادا اور پاک و صاف مذہب دنیا کو سکھایا جس میں بقول فاضل محقق گاڈ فری ھگنس1 (1 یہ سب باتیں عیسائی مذہب میں اب تک موجود ہیں، رومن کتھولک فرقہ کے مذہب کی بنیاد ہی ایسی باتوں پر ہے)
نہ پاک پانی ہے نہ تبرک،نہ صورت نہ تقریر، نہ سینٹ اور نہ خدا کی ماں سے اس پر داغ لگتا ہے، اور نہ ایسے مسائل اس میں ہیں کہ ایمان بدونِ عمل کے مؤثر ہو اور نزع کے وقت کی توبہ کام آئے اور غایت درجہ کی عنایات اور مغفرت اور خفیہ اقرار کار آمد ہوں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے پیرووں کو بگاڑ دیں اور پھر مقتداؤں کے حوالہ کردیں جو فی الحقیقت ان مسائل سے بھی بدتر اور ناچیز بات ہے۔
ریورنڈ جی۔ ایم ۔ راڈویل: جو ایک متعصب پادری ہیں لکھتے ہیں: (قرآن کی تعلیم سے) عرب کے سیدھے سادے خانہ بدوش ۔ّبدو ایسے بدل گئے جیسے کسی نے سحر کردیا ہو۔ وہ سلطنتوں کے قائم کرنے والے، ملکوں کے فاتح، شہروں کے بسانے