ہٹا دی۔ اور زنا و لواطت کی رسم کو مٹا دیا۔ غرض بے شمار اخلاقِ ذمیمہ اور افعالِ شنیعہ کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ اور شرک و بت پرستی کی بجائے توحید کا ۔َعلم نصب کیا۔ اور وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان میں ایک بے نظیر اخوّت و اُلفت اور مواسات و مساوات کا جذبہ پیدا کردیا۔ اس شاندار انسان اور قابلِ قدر مصلح پر بے بنیاد اعتراضات کرنا اور اس پر بہتان باندھنا اور ہر ملامت کے لیے اُسے نشانہ بنانا نہایت مکروہ اور نازیبا فعل ہے۔ 1 (1 ص:۸۴)
۵۔ ہمارا یقین ہے کہ وہ ایک عظیم الشان، ذی قدر اور بلند مرتبہ انسان تھا۔ مرسل تھا۔ مامور من اللہ تھا۔ اور اس میں وہ الٰہی روشنی اور حقیقی نور پر تو فگن تھا جو دنیا میں آکر ہر شخص کو منور کرتا ہے۔ اور یہ کچھ ہمیں پر موقوف نہیں، بلکہ پیشتر غیر مسلم مصنفین باوجود مخالفت و دشمنی کے آپ کی خوبیوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے، یہاں تک کہ بعضوں نے صاف الفاظ میں ان کا مامور من اللہ اور رسول اللہ ہونا تسلیم کیا ہے۔1 (1 ص: ۸۴ و ۸۵) اھ ملخصاً۔
1 (1 (یز) منقول از ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ۔ ۲۹ جولائی ۱۹۲۷ء عیسوی)
مسٹر کار لائل لکھتے ہیں:
عرب کی قوم کے حق میں اسلام کا آنا گویا تاریکی میں روشنی کا آنا تھا۔ عرب کا ملک پہلے پہل اسی کے ذریعہ سے زندہ ہوا۔
اہلِ عرب گلہ بانوں کی ایک غریب قوم تھی اور جب سے دنیا بنی تھی عرب کے چٹیل میدانوں میں ہی پھرا کرتی تھی۔ اور کسی شخص کو اس کا کچھ خیال ہی نہ تھا۔ اس قوم میں ایک اولو العزم پیغمبر ایسے کلام کے ساتھ جس پر وہ یقین کرتے تھے بھیجا گیا اب دیکھو کہ جس چیز سے کوئی واقف ہی نہ تھا وہ تمام دنیا میں مشہور ہوگئی تھی۔ چھوٹی چیز نہایت ہی بڑی چیز بن گئی اس کے بعد ایک صدی کے اندر عرب کے ایک طرف ’’غرناطہ‘‘ اور ایک طرف ’’دہلی‘‘ ہوگئی۔ عرب کی بہادری عظمت کی تجلی اور عقل کی روشنی زمانہائے دراز تک دنیا کے ایک بڑے حصہ پر چمکتی رہی۔ اعتقاد ایک بڑی چیز اور جان ڈال دینے والا ہے، جس وقت کو ئی قوم کسی پر اعتقاد لاتی ہے تو اس کے خیالات بار آور اور روح کی عظمت دینے والے اور رفیع الشان ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے عرب، اور یہ ہے محمد (ﷺ)، اور یہ ہے ایک صدی کا زمانہ۔ گویا ایک چنگاری ایسے ملک میں پڑی جو اندھیرے میں کس مپرس ریگستان تھا، مگر دیکھو کہ اس ریگستان نے زور و شور سے اُڑ جانے والی بارود کی طرح نیلے آسمان پر اُٹھتے ہوئے شعلوں سے دہلی سے غرناطہ تک روشن کیا۔ محمد (ﷺ) حیاتِ ابدی کا ایک نورانی وجود تھا جو قدرت کے وسیع سینہ سے دنیا کو منور کرنے کو نکلا تھا اور بے شبہ اس کے لیے امرِ ر۔ّبانی یونہی تھا۔
ایک اور یورپین لکھتا ہے کہ جو نتیجے اسلام سے حاصل ہوئے وہ اس قدر وسیع، دقیق اور مستحکم ہیںکہ ان کی تکمیل کرلینا تو درکنار ہم یقین نہیں کرسکتے کہ وہ انسان کے خیال میں بھی آسکیں۔ اسی سبب سے بہ عوض اس کے کہ اس کی نسبت اس طرح بربحثیں کی جائیں جس طرح کے ’’سولن‘‘ کے قانون اور یا ’’نیپولین‘‘ کی فتوحات کے نتائج کے اندازہ کرنے میں کی