ظاہر ہوجاتی ہے کہ موجودہ مسلمان ان کی پابندی سے کوسوں دور ہیں اور اگر مسلمانوں میں کوئی ایسی اولو العزم روح پردۂ غیب سے شہود میں آئے جو ان کو از سرِ نو اسلام کے اصلی اور صحیح مرکز پر لے آئے تو اس میں کلام نہیں کہ ان کی قوت کا طرۂ افتخار آسمان تک جا پہنچے اور سیاسی اعتبار سے نہ سہی اخلاقی اجتماعی اور علمی پہلو سے وہ دنیا کی بساط پر ایک نہایت اہم مہرہ بن سکتے ہیں۔ مجھے اس وقت اسلام کی سیاسی اہمیت سے سروکار نہیں، بلکہ میں صرف اس کے ایک خاص پہلو پر بحث کرنا چاہتا ہوں جس پر اس وقت تک شاید کسی یورپین نے غور نہیں کیا۔ یہ پہلو اُن احکام و قوانین سے تعلق رکھتا ہے جو قرآن کریم نے حفظانِ صحت اور تندرستی کے متعلق اپنے ماننے والوں پر فرض کیے ہیں۔ میں نہایت وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ روئے زمین کی تمام کتب سماوی پر قرآن کو اس لحاظ سے خاص امتیاز حاصل ہے۔ اگر ہم شاندار مگر سادہ واجبات و فرائض حفظانِ صحت پر نظر کریں جو قرآن کریم میں مذکور ہوئے ہیں اور پھر اس امر پر غور کریں کہ ان کی پابندی کرنے والوں کو جنت الفردوس کے مستحق قرار دینے میں اس کی کیا حکمت ہے تو ہم پر یہ روشن ہوجائے گا کہ اگر یہ صحیفہ آسمانی اور کلام ر۔ّبانی ساکنانِ ایشیاء کو نہ ملتا تو ایشیا کا سادابا آفرین خطہ زمین یورپ کے حق میں اور بھی بلا خیز ہوگیا ہوتا۔ اسلام نے صفائی اور پاکیزگی اور پاک بازی کی صاف و صریح ہدایات کو نافذ کرکے جرائمِ ہلاکت کو مہلک صدمہ پہنچا دیا ہے، غسل اور وضو کے واجبات نہایت دور اندیشی اور مصلحت پر مبنی ہیں۔ غسل میں تمام جسم اور وضو میں اُن اعضاء کا پاک صاف کرنا ضروری ہے جو عام کاروبار یا چلنے پھرنے میں کھلے رہتے ہیں۔ منہ کو صاف کرنا اور دانتوں کو مسواک کرنا، ناک کے اندرونی گرد و غبار وغیرہ کو دور کرنا، یہ تمام حفظِ صحت کے لوازم ہیں اور ان واجبات کی بڑی شرط آبِ رواں کا استعمال ہے، جو فی الواقع جراثیم کے وجود سے پاک ہوتا ہے۔ حضرت محمد (ﷺ) نے لحمِ خنزیر میں اور بعضے ممنوع جانوروں کے اندر امراض ہیضہ، وٹان، فالین، بخار وغیرہ کا خطرہ دریافت کرلیا تھا۔ حیوانات کے ذبح کرنے کا جو طریقہ شارعِ اسلام نے تلقین کیا ہے وہ بہت ضروری اور اہم ہے۔ گرمی اور ۔ّحدت جانوروں کے خون میں مواد فاسد پیدا کرتی ہے، ہزارہا ایسی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے جو نسلِ انسانی کے لیے ۔ّسمِ قاتل کا حکم رکھتی ہے، ایسے بیمار جانوروں کے جراثیم پیدا کردیتا ہے، اس لیے ذبح کرنے کے عمل میں جانور کے خون کا کثرت سے خارج ہونا لازمی ہے۔ غسل اور وضو سے جو صفائی اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور حفظِ صحت کی ان دو شرطوں کے بعد تیسری اہم اور قابلِ قدر شرط ورزش جسمانی کی ہے یہ شرط نہایت آسانی کے ساتھ ادائے نماز سے پوری ہوتی ہے۔
نماز میں قیام و رکوع و قعود و سجود کی حرکات اعلیٰ حکمت عملی اور تدبیر پر مبنی ہیں۔ اگر اہلِ یورپ میں اسلامی نماز کا رواج ہوتا تو ہمیں جسمانی ورزش کے لیے نئی نئی ورزشی حرکتیں ایجاد نہ کرنا پڑتیں۔ ایشیا کے گرم ملک میں انسانی جسم کے اندر