اتنا اور عرض کرتا ہوں کہ غور کرنا چاہیے کہ اگر یہی واقعہ اس زمانہ کے مشہور مدعیِ نبوت کے سامنے پیش ہوتا تو کیا وہ اس کا یہی جواب دیتا جو احقر نے دیا ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ وہ تو یوں کہتا کہ تمہارا مجھ کو رسول نہ سمجھنا اور اس بنا پر ان الفاظ کو غلط جان کر فکرِ تدارک کرنا تمہاری غلطی ہے اور میں واقع میں رسول ہوں۔ اور یہ کہتا کہ اس سے بڑھ کر میری رسالت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ تم باوجود یہ کہ میری رسالت کا اقرار کرنا نہیں چاہتے، مگر خدا تعالیٰ تم سے جبراً اس کا اقرار کراتا ہے، انتھی۔
اب مواز نہ کرکے بتائیے کہ احقر کے جواب میں نعوذ باللہ! دعوی تو درکنار کہیں اس کا شبہہ بھی ہے؟ حاشا وکلا! اگر یہ قصداً افترا نہیں بلکہ بدفہمی ہے تو اگر اس کی کوئی بنا بھی ہے جیسے بعض کا قول سنا گیا ہے کہ صاحبِ واقعہ کے اس مضمون کے نقل کرنے پر رد نہ کرنا اس مضمون کی تقریر ہے تو موٹی بات ہے جب صاحبِ واقعہ خود ہی اس مضمون کے ردو ابطال کو بھی نقل کررہا ہے تو پھر مجیب کو اس کی کیا حاجت رہی؟ تو مجیب کا سکوت فی الواقع اس صاحبِ واقعہ کے اس ردو ابطال کی تقریر ہے نہ کہ اس مضمون کی، پھر یہ بنا کیا چیز رہی اور اگر بلا کسی بنا کے یہ بدفہمی ہے تو بس اس آیت کا مصداق ہے آیۃ۔ {فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَٰلکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ}1 اللہ تعالیٰ فہم وتدین عطا فرمائے۔
غرض اس الزام کا منشا تو جہلِ محض یا عنادِ بحت ہے۔ رہے بقیہ الزامات، سو اصل یہ ہے کہ اس واقعہ کے دو جزو ہیں: ایک خواب کا، ایک بیداری کا۔ سو ظاہر ہے کہ حصۂ خواب میں وہ بالیقین وبالاجماع مکلف تو ہے نہیں، مگر تاہم اس میں فی نفسہ چند احتمال ہیں۔ ایک: یہ کہ یہ خواب گو صورتاً منکر وقبیح ہے، مگر نظر برصلاح حالِ صاحبِ رویا تعبیر اس کی اچھی ہو، چوں کہ
صاحبِ رویا کی حالت کو تعبیر میں دخل ہوتا ہے جیسا حدیث میں قصہ آیا ہے کہ امِ فضل نے حضور ﷺ کی خدمت میں یہ خواب عرض کیا: کان قطعۃ من جسدک قطعت ووضعت في حجري اور ساتھ ہی یہ عرض کیا تھا: رأیت حلما منکرا اللیلۃ، مگر آپ نے یہ فرمایا کہ رأیت خیرًا اور پھر ایک اچھی تعبیر دی،1 حالاں کہ ظاہراً کیا بے ادبی کا واقعہ دیکھا اور جیسا امام ابوحنیفہ ؒ نے ایک خواب دیکھا: أنہ أتی قبر رسول اللّٰہ ﷺ فنبشہ فأخبر أستاذہ، وکان أبوحنیفۃ صبیا بالمکتب، فقال لہ أستاذہ: أن صدقت رؤیاک یا ولد، فإنک تقتفي أثر رسول اللّٰہﷺ وتنبش عن شریعتہ، فکان کما عبر الأستاذ۔2 اسی طرح علامہ خطیب نے اپنی تاریخ میں بتغییر بعض الفاظ یہ واقعہ درج فرمایا ہے (من رسالۃ بعض الاحباب) دیکھئے یہ خواب ظاہراً کیسا موحش تھا، لیکن تعبیر کیسی تسلی بخش بتلائی گئی۔