پس اس عجالۂ مختصرہ میں ان مضامین کو اس ترتیب سے لکھاجاوے گا کہ اول ایک وہ مضمون جو مبنیٰ ہے اعتراض کا بعنوان ’’حکایت‘‘ لکھوں گا، پھر معترض کے اعتراض کو بعنوان ’’شکایت‘‘ نقل کروں گا، پھر اپنے نزدیک جو اس کی حقیقتِ واقعیہ ہے بعنوان ’’درایت‘‘ لکھ کر ختم کردوں گا۔ اور بفضلہ تعالیٰ ان شبہات سے کوئی مفسدہ ہوا بھی نہیں، چناں چہ خطبہ کے آخری نوٹنمبر ۱ میں مذکور ہے اور خود حاجت نہ ہونا بھی مسلم نہیں، رفعِ شبہات وتصحیحِ اعمال وعقائد اعظم حاجت ہے، مثلاً: حکایت متضمنہ خواب مندرجہ رسالہ صفر حکایت سوم میں وجہ حاجت نہایت ظاہر ہے کہ اگر کسی اہلِ حال کو ایسا امر پیش آوے تو وہ غلطیِ اعتقاد یا پریشانی وتو ہمِ مطرودیت سے بچارہے۔ اس سے وہ شبہہ بھی دفع ہوگیا جو بعض خیر خواہوں کو جواب نہ دینے کے متعلق واقع ہوا کہ اپنے سے رفعِ تہمت کرنا سنت بھی تو ہے، جیسا حضرت صفیہ ؓ کے واقعۂ اعتکاف میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تھا۔
وجہ جواب ظاہر ہے کہ یہ سنت بھی اس امر میں ہے جو محلِ اشتباہ ہو اور جب یہ نہیں تو احتمالات غیر ناشی عن دلیل کا کہاں تک انسداد کیا جاوے۔ مجھ کو اس وقت اپنی تین حالتیں پیشِ نظر ہیں، ایک: محبین کی ملامت اور مخالفین کا اعتراض، دوسرے: ان سب اعتراضوں کو جن کو دوسرا عیب جو مدتوں میں چھانٹتا از خود ایک جگہ جمع کردینا، تیسرے: اس جمع کرنے میں یہ نیت کہ جس کا جی چاہے تعلق رکھے جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ ان تینوں حالتوں پر تین شعر بے ساختہ ذہن میں آئے ہیں، اول کے متعلق مومن خاں کا یہ شعر:
دوست کرتے ہیں ملامت غیر کرتے ہیں گلہ
کیا قیامت ہے مجھی کو سب برا کہنے کو ہیں
ثانی کے متعلق اسی غزل کا دوسرا شعر:
میں گلہ کرتا ہوں اپنا تو نہ سن غیروں کی بات
میں یہی کہنے کو وہ بھی اور کیا کہنے کو ہیں