پڑھئے:
((لاَ اِلٰہَ اِلاََّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ))
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
منیٰ جائیے یا عرفات‘ کثرت سے تلبیہ پڑ ھتے رہیے۔ عرفات جائیے تو وہاں کے لیے بھی بہترین دعا یہ بتلائی گئی ہے:
((لاَ اِلٰہَ اِلاََّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ))
ارشاد نبویﷺ ہے کہ یہ دعا میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور e نے یہ آیت عرفات میں تلاوت فرمائی:
{شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَ اُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لاَ اِلٰہَ الِاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ}
’’خدا نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور (گواہی دی) فرشتوں نے اور اہل علم نے جو انصاف والے ہیں (کہ) کوئی بندگی کے لائق نہیں مگر وہی اللہ جو عزت والا ہے اور حکمت والا ہے۔‘‘
رمی جمرات کے وقت بھی کہیے کہ:
((بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ رَغْمًا لِلشَّیْطَانِ وَرِضَا لِلرَّحْمٰنِ))
’’میں اللہ کا نام لے کر (کنکری) مارتا ہوں‘ اللہ سب سے بڑا ہے (میں کنکری مارتا ہوں) شیطان کو رسوا کرنے کے لیے اور رحمن کو خوش کرنے کے لیے۔‘‘
ان سب باتوں پر غور کیجئے‘ اور یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہر موقع پر کس طرح تو حید کا اقرار اور اعلان ہے۔ ضرورت ہے کہ ہر حاجی اس توحید میںاپنے آپ کو غرق کردے‘ توحید محض قال نہیں بلکہ حال بن جائے‘ توحید کا مطلب محض خدا کو ایک کہنا نہیں بلکہ’’ ایک جاننا‘‘ ہوجائے‘ معبودیت محبوبیت اور مطلوبیت صرف حق تعالیٰ کے لیے ہو‘ اور ان کی اور صرف انہی کی اولیت وآخریت‘ ظاہریت وباطنیت‘ محسوس ومنکشف ہو جائے۔
# خوش نصیب حاجی جب تلبیہ کہے وہ اس بات کو یاد کرے کہ اس تلبیہ میں اس کی موافقت زمین کی ہر چیز کر رہی ہے۔
ارشاد نبویﷺ ہے
’’جب مسلمان لبیک کہتا ہے تو اس کے داہنے اور بائیں ختم زمین تک جتنی چیزیں ہیں (مثلاً پتھر‘ درخت‘ ڈھیلے) سب لبیک کہتی ہیں۔‘‘
(ترمذی و ابن ماجہ )
ارشاد نبویﷺ کا استحضار تلبیہ کہنے والے کو عجب روحانی لذت بخشتا ہے۔
$ جس طواف کے بعد سعی کی جائے اس میں رمل کیا جاتا ہے‘ یعنی پہلے تین چکروں میں مونڈھے ہلا کر ذرا ا کڑکے تیز قدم چلتے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ کفارنے مسلمانوں پر طعن کیا تھا کہ مدینہ کے بخار نے ان کو کمزور کر دیا ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ اس طرح اکڑ کر چلو تاکہ کفار کے مقابلہ میں اظہار قوت وعظمت ہو‘ ظاہر ہے کہ اب وہاں اعدائے دین تو ہیں نہیں تاہم رمل کا یہ طریقہ باقی ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلویa کا مشورہ ہے:
’’و اگر ایں اظہار جلاوت و غلبہ را نسبت بہ اعدائے باطن کہ شیطان وجنود