مواجہہ شریف میں حاضری اور پہلا سلام
اس کے بعد پورے ادب اور ہوش کے ساتھ (اگر ہوش باقی رہے) مواجہ شریف میں آئیے یعنی آنحضرت e کے روبرو حاضر ہو جائیے۔ اور یہ تصور کرتے ہوئے کہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوں‘ اور حضور e میری گزارش بہ نفس نفیس سن رہے ہیں‘ پورے ادب کے ساتھ ہلکی آواز سے سلام عرض کیجیے۔ سلام کے بارے میں ذوق مختلف ہیں بعض لوگ مختصر سلام پسند کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہی اچھا ہے کہ بس مختصر سلام عرض کریں۔ سلف کا عام مذاق بھی یہی تھا‘ اور بے چارے عوام جو عربی بالکل نہیں جانتے اور سلام کی لمبی چوڑی عبارتیں نہ ان کو یاد ہوتی ہیں نہ وہ ان کے معنی مطلب سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے تو گویا یہ ضروری ہے کہ وہ مختصر ہی سلام عرض کریں مثلاً صرف اتنا عرض کریں:
((اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاخَیْرِ خَلْقِ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ))
’’اے اللہ کے رسول آپ پر سلام اے اللہ کے محبوب آپ پر سلام اے بہترین خلق اللہ آپ پر سلام اے اللہ کے نبیؐ آپؐ پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں۔ ‘‘
اور جو عربی د ان حضرات طویل سلام عرض کرنے میں زیادہ لذت اور کیف محسوس کریں ۱؎ وہ اگر چاہیں تو رفیق محترم مولانا سید ابوالحسن علی کے مضمون ’’ اپنے گھر سے بیت اللہ تک ‘‘ میں دیکھ لیں‘ اس عاجز کو بھی وہی سلام بہت زیادہ محبوب ہے۔ یہاں ایک سلام اور لکھ دیتا ہوں‘ اپنی درمیانی حیثیت کی وجہ سے شاید آپ کے لیے اور آپ جیسوں کے لئے وہ زیادہ مر غوب ہوگا۔ یہ سلام بھی اس عاجز کو بہت پسند ہے:
((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَاِنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ َوَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ وَجَاھَدْتَّ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ فَجَزَاکَ اللّٰہُ عَنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ خَیْرَ مَاجَزٰی نَبِیًّا عَنْ اُمَّتِہٖ وَرَسُوْلاً عَنْ خَلْقِہٖ))
’’اے اللہ کے پیغمبر آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں! یا
۱؎ افراد کی انفرادی دعائوں میں اور اسی طرح صلوٰۃ وسلام میں اختصار پسندی اور طوالت پسندی یہ بالکل ذوقی چیزیں ہیں‘ شارع نے کسی نص کے ذریعہ اس قسم کے امور میں نہ ہمیں خاص الفاظ کا پابند کیا ہے نہ خاص مقدار کا اس لیے ان چیزوں میں کسی ایک ہی پہلو کو صحیح سمجھنا اور دوسرے پہلو کو غلط قرار دینا صحیح نہیں اصل قابل توجہ چیز یہ ہے کہ حقیقت ہو‘ بے روح رسم نہ ہو۔
رسول اللہ میں آپ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ (کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ہے) اور اس کا کوئی شریک ساجھی بھی نہیں ہے اور بلاشبہ آپؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور میں اس کی بھی شہادت دیتا ہوں (اور انشاء اللہ قیامت میں اللہ کے سامنے بھی یہ شہادت دوں گا) کہ آپ نے اس کا پیغام پہنچا دیا امانت کا حق ادا کر دیا اور امت کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہ رکھی اور گمراہی اور تاریکی کو بالکل دور کر دیا۔ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کا حق پوری طرح ادا کر دیا پس آپ کو آپ کا مولا اس امت کی طرف سے وہ بہترین جزادے جو کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے اور کسی رسول کو اپنی مخلوق کی طرف سے اللہ نے دی