ٹھہرئیے۔ بعض لوگوں کو دیکھا کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد جانے کے لیے اتنے بے تاب اور بے قرار ہوتے ہیں کہ انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے جتنے دنوں مجبوراً ان کو ٹھہرنا پڑتا ہے اس زمانہ میں ایک ایک دن کو وہ مصیبت سمجھتے ہیں اور سخت بددلی اور شکووں کے ساتھ یہ ایام گزارتے ہیں اللہ تعالیٰ رحم فرمائے یہ بڑی بری علامت ہے۔ اگر بالفرض روانگی کا انتظام ہو جائے تو جلدی جانے میں کوئی حرج نہیں‘ اور اپنے احوال ومصالح کے مطابق جلدروانگی کی کوشش میں بھی کوئی مضائقہ نہیں‘ لیکن اللہ کے مقدس اور محترم شہر سے دل کا اچاٹ ہونا اور معاذاللہ بددلی کی کیفیت کا پیدا ہو جانا بہت بری حالت کی نشانی ہے۔ مومن کا حال تو یہ ہونا چاہیے کہ برسوں رہ کے بھی جی نہ بھرے اور دل سے یہی آواز آتی رہے :
چو رسی بکوئے دلبر بسیار جان مضطر
کہ مباد بار دیگر رسی بدیں تمنا
مکہ معظمہ میں اب آپ کے مشاغل
بہر حال جتنے دنوں آپ کو مکہ معظمہ میں ٹھہرنا ہو پوری خوش دلی سے رہیے اور اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو یہ موقع نصیب فرمار کھا ہے
مصلحت نیست مرا اسیری ازاں آب حیات
ضَاعَفَ اللّٰہُ بِہٖ کُلَّ زَمَانٍ عَطَشِیْ
دن میں اور رات میں جتنے ہو سکیں روز نفلی طواف کیجئے۔ تنعیم یا جعرانہ جا جاکر اور وہاں سے احرام باندھ کے نفلی عمرے کیجئے‘ اپنی طرف سے‘ اپنے والدین کی طرف سے اپنے خاص محبوں اور محسنوں کی طرف سے غرض جس کی طرف سے دل چاہے کیجئے‘ مسجد حرام میں نفلی نمازیں پڑھئے۔ عمر بھر ہزاروں میل کے فاصلہ سے جس کعبہ کی طرف منہ کر کے غائبانہ نمازیں اب تک پڑھتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اگر زندگی رہی تو انشاء اللہ یونہی پڑھتے رہیں گے۔ اب اللہ نے موقع دیا ہے کہ اس کے بالکل سامنے اور اس کی دیوار کے نیچے کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیے اس لیے عمر بھر کی حسرت نکال لیجئے۔ جس کعبہ کے گرد حضرت ابراہیم u سے لے کر خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد e تک نہ معلوم کتنے لاکھ اور کتنے کروڑ اولیاء اللہ نے طواف کیے‘ اور ان طوافوں میں جنت سے اتارے ہوئے جس پتھر (حجر اسود) کو بہتے ہوئی آنسوئوں کے ساتھ بوسے دیئے اور جہاں جہاں انہوں نے نمازیں پڑھیں (اور یقینا کعبۃ اللہ کے اردگرد کی بالشت بھر زمین بھی ایسی نہیں جس پر انبیاء i‘ ان کے اصحاب کرام یا اولیاء عظام میں سے کسی کی پیشانی نہ ٹکی ہو) اب اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے کہ چاہیں تو دن رات اللہ کے اس مقدس بیت کا طواف کریں حجر اسود جو اس دنیا میں ’’ یمین اللہ‘‘ (اللہ کے مقدس ہاتھ) کے گویا قائم مقام ہے اور رسول اللہ e جس کو رو روکر چوما کرتے تھے‘ اللہ نے آپ کو موقع نصیب فرمایا ہے کہ آپ بھی اس کو چومیں اور اس پر آنسو بہائیں۔ اور جس ملتزم سے (یعنی کعبہ کے جس حصہ سے) چمٹ کر اور اپنے رخسار مبارک کو اس پر رکھ رکھ کے رسول اللہ e دعائیں کیا کرتے تھے‘ اب آپ کے لیے بھی موقع ہے کہ چاہیں تو دن میں کئی کئی دفعہ اس سے چمٹ کر روئیں اور دعائیں کریں۔ اسی طرح حطیم میں (جو دراصل کعبۃ اللہ ہی کا ایک