ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
ہے۔جب ہم بزناس (Biznas) کمپنی کے کام کی نوعیت کو دیکھتے ہیں تو اس کے دوحصے ہیںایک وہ حصہ جس کو وہ اپنیProducts) ( کہتے ہیں یعنی کمپیوٹرکے ٹریننگ کورس اور ویب سائیٹ کی فراہمی۔دوسرا وہ حصہ جس کو وہ Marketing کہتے ہیں یعنی آگے ممبر بنانا اور اس پر اپنے ممبروں کو اپنی آمدنی میں شریک کرنا ۔ ان دوحصوںمیںسے کمپنی کا جواصل مقصد ہے وہ اس کی Marketing یعنی ممبرسازی کا حصہ ہے او ر Products کا حصہ تو محض یہ دکھانے کے لیے ہے کہ وہ فی الواقع تجارتی بنیادوں پرکام کر رہی ہے ۔ہمارے اس دعوے پر یہ مشاہدہ کافی دلیل ہے کہ اس کمپنی کے جو لوگ ممبر بن رہے ہیںان کی عظیم اکثریت کو کمپنی کےProducts سے کچھ بھی دلچسپی نہیں ان کی دلچسپی صرف مارکیٹنگ (Marketing)سے ہے ۔ لاہور چھائونی کے علاقے کے ایک بزناس آفس کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد٧٥ فیصد تو ضرور ہے۔غرض بزناس کی مارکیٹنگ سکیم غیر شرعی بنیادوں پر قائم ہے اور ناجائز ہے۔ دار العلوم کراچی کے فتوے کی حقیقت : ہماری ان تصریحات کے برعکس دار العلوم کرا چی نے عجیب ہی فتوٰی دیاہے اور حیرت ہے کہ اس پر حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی مدظلہ کے بھی دستخط ہیں ۔ بزناس کمپنی نے اس فتوے سے جو فائدہ اُٹھایا ہے اور اُٹھا رہی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے اس سلسلہ میں ہم نے دارالعلوم کراچی بلکہ براہِ راست مولانا تقی عثمانی مدظلہ سے رابطہ بھی کیا لیکن انہوںنے ہمیں کوئی جواب ہی نہیں دیا ۔ دارالعلوم کے فتوے میں یوں ہے ''شرعی نقطہ نظر سے اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : اس فتوے کی دوسری اور تیسری صورت پر ہم اپنا تبصرہ پیش کریںگے۔ (پہلی صورت) : کوئی شخص صرف پراڈکٹ حاصل کرنا چاہتا ہے اور مارکیٹنگ سسٹم میںشامل ہونا نہیں چاہتا تو یہ صورت بلاشبہہ درست ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔(فتوٰی دارالعلوم ) (دوسری صورت) : کسی شخص کا مقصود پر اڈکٹ حاصل کرنا اور اس سے استفادہ کرنا بھی ہے اور مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونا بھی ہے ۔تو چونکہ یہ سسٹم پراڈکٹ سے مربوط ہے، اس لیے اب یہ کہا جائے گا کہ مارکیٹنگ سسٹم میں شمولیت کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کمپنی جو پراڈکٹ مہیا کرتی ہے اس کی بازاری قیمت ادا کردہ فیس یعنی ٩٩ ڈالر کے کم ازکم برابر ہے یا نہیں ۔ اگرکم ازکم برابر ہے تو مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونا بھی جائز ہے ورنہ یہ قمار کے حکم میں داخل ہو کر ناجائز ہوگا۔ اب رہی یہ بات کہ یہ فیس زیادہ ہے یا برابر ہے یا کم ہے اس کی تحقیق مفتی کی ذمہ داری نہیں۔بلکہ جو شخص اس میں شامل ہونا چاہتا ہے وہ خود تحقیق کرے ۔اگر تحقیق کے نتیجے میں اس کا دل اس بات پر مطمئن ہوکہ پرا ڈکٹ کی جو فیس اُس