ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
نے ادا کی ہے وہ واقعتا بازاری قیمت کے برابر ہے تو اُس میں شمولیت اختیار کرے ورنہ اس سے اجتناب کرے۔ تبصرہ : (i) فتوے میں یہ بات ہے کہ ''اگر ادا کردہ فیس بازاری قیمت کے کم از کم برابر ہے تو مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونا جائز ہے۔'' اس سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بزناس والوں کا پیش کردہ مارکیٹنگ سسٹم جائز بھی ہے یا نہیں ۔اگر دارالعلوم والے اس کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کی کیا دلیل ہے ۔ہم نے اس کے عدم جواز کے جو دلائل اوپر ذکر کیے ہیں دارالعلوم والے ان کو کس دلیل سے باطل سمجھتے ہیں ۔ہم نے بزناس کا مارکیٹنگ سسٹم ان کی دستاویز ات کا براہ راست مطالعہ کرکے سمجھا ہے او ر بزناس افسران اس کو غلط ثابت نہیں کرسکے۔ لاہور چھائونی کے خود بزناس کے فائونڈر عمران خان نے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کو اپنے استفتا ء میں اپنے کام کی جو تفصیل لکھی اس میں واضح طورپر یہ لکھا ہوا موجود ہے کہ ''اوپر دی گئی ڈائیگرم میں جب ٩ ارکان شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے یہ مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ کسٹمرپہلا اسٹیپ مکمل کر لیا ہے لہٰذا اسٹیپ (مرحلہ) مکمل کرتے ہی ممبر کمیشن کے حصول کا حقدار ہوجاتا ہے کمیشن کا پہلا چیک وصول کرنے کے لیے کسٹمرکو تین ضروریات پوری کرنی ہوں گی۔ (١) ذاتی طورپر ہر کسٹمردو ممبران کو متعارف کرائے۔ (٢) گروپ کے اراکین کی تعداد ٩تک جا پہنچے ۔ (٣) ان ٩ ارکان میں سے کم از کم تین کسٹمر ایک جانب (دائیں یا بائیں ) اور بقیہ کا دوسری جانب ہونا ضروری ہے''۔( استفتا ء ص٣) (ii) یہ بات کہ ''پروڈکٹ کی بازاری قیمت جمع کردہ فیس سے کم ہو (بالفاظ دیگر ادا کردہ فیس پروڈکٹ کی بازاری قیمت سے زائد ہو )تو مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونا قمار ہوگا ''اس میں واضح نہیں کہ وہ قمار یعنی جو ا کیسے ہوگا۔مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونے کے لیے اس کو رشوت کیوں نہ سمجھ لیاجائے؟ (iii) یہ کہنا کہ ''فیس زیادہ ہے یا نہیں اس کی تحقیق مفتی کی ذمہ داری نہیں بلکہ جو شخص اس میں شامل ہونا چاہتاہے وہ خود تحقیق کرے۔''(فتوٰی دارالعلوم کراچی) دار العلوم کراچی کی طرف سے یہ بات جبکہ اس میں مولانا تقی عثمانی مدظلہ اور مولوی عمران اشرف عثمانی جیسے