ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
یہ تو بہت زیادہ مشابہہ تھے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وکان مخضوبا بالوسمة اور خضاب کر رکھا تھا''وسمہ'' کا جو سیاہی کے بہت قریب ہو جاتا ہے دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ میں ابن زیاد کے پاس بیٹھا تھا تو اتنے میں سرمبارک لایا گیا ان کا تو اس پر ایک چھڑی سے یہ کچھ مارنے لگا اور ناک کو اس نے چھیڑا اور کہنے لگا مارأیت مثل ہذا حسنا ایسا حسن میں نے کبھی نہیں دیکھا بہت ہی خوبصورت ہیں مگر یہ طعنے کے طورپر طنزیہ یہ جملے کہے فقلت میں نے کہا اما انہ کان اشبہم برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ تو جناب رسول اللہ ۖ کے ساتھ بڑے مشابہہ تھے تو جو اس طرح کی باتیں کر رہا ہے تو ان کا اثر تو جناب رسول اللہ ۖ تک جاتا ہے تو ایسی باتیں بے تکی اس نے کیں ۔خدا کی قدرت تھوڑے عرصہ بعد وہاں ایک بغاوت اُبھری اور اس میں یہ عبید اللہ ابن زیاد مارا گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرانے کا ذمہ دار دراصل یہی آدمی تھا کوفے کا گورنر یہی تھا اور اس نے پھر وہاں حُر ابن قیس کو بھیجا اور پھر عمر ابن سعد کو بھیجا یہ عُمر ابن سعد نام ہے اُن کا''عَمرو '' نہیں ہے مشہور ویسے'' عَمروابن سعد ''ہے مگر عُمر ابن سعد ہے صحیح نام ،عمرابن سعد ابن ابی وقاص او ر حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں ہیں ان کے بیٹے ہیں عمر، وہ کوفے میں تھے وہ سرکاری فوج کے آدمی سمجھے لیجئے اِن کو امیر بنا کر بھیج دیا تو انھوں نے تو نہیں چاہا کہ شہادت ہو ،لڑائی ہو، بات چیت کرکے آگئے اوربھی لوگ تھے'' شِمر''وغیرہ جنھوںنے یہ چاہا کہ مزید تقرب حاصل کریں عبیداللہ ابن زیاد کا تو اُس سے کہا کہ وہ دیر کر رہے ہیں حضرت حسین کو ختم کرنے میں اور معلوم ہوتا ہے وہ اُن سے مل گیا ہے وغیرہ وغیرہ ایسے کرتے رہے پھر اس نے پیچھے سے ان کو بھیج دیا اور اس کے ساتھ (عمر ابن سعد کے نام ) ایک آرڈر بھیج دیا کہ یا تو تم فوجی کارروائی کرو فوراً ورنہ تو تمھیں معزول بھی کردوں گا اور مار بھی دوںگا اور تمہاراگھر بھی کھدوا دوں گا ۔ عمر ابن سعد کی کوفہ میں قیام کی وجہ : اب ہو ا یہ کہ(ا ن کے والد) حضرت سعد رضی اللہ عنہ ایران کے فاتح تھے قادسیہ کے معرکہ کے بعد (ایرانیوں کی ) کمر ٹوٹ گئی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں یہ حکم دیاتھا کہ اس طرف ایک چھائونی بنا لو، علاقہ ایسا انتخاب کرو جس کی آب وہوا تمہارے علاقے سے ملتی جلتی ہو تو وہ پسند کیا انھوں نے تو وہ کوفہ کا علاقہ تھا جس کی آب وہوا عرب کی آب وہوا سے ملتی جلتی تھی تو وہاں آباد کر دیا ان لوگوں کو اور ہر آدمی کو جتنی جتنی مناسب تھی الاٹ کرکے زمین دے دی ،''تخطیط'' کردی الاٹمنٹ کر دی تو یہ لوگ وہاں رہتے رہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی وہاں رہے ہیں حاکم بھی رہے ہیں کیونکہ گورنر تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کومدینہ منورہ بلالیا تو مدینہ منورہ آگئے پھر آتے جاتے رہے بہرحال وہاں رہنا ہوا اور وہاں ہی ان کے مکان وغیرہ ہوں گے تو اس (عبید اللہ بن زیاد ) نے یہ کہا ان کے بیٹے سے یا تو تُو