ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
حضرت اقدس اکابرزمانہ کی نظرمیں : اس کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اکابر زمانہ کے کلمات ِمدحیہ جو حضرت مدنی رحمہ اللہ کے بارے میں مستند طورپر ثابت ہیں ،نقل کردیں : حضر ت مولانا عبدالقادر صاحب رائپوری قدس سرہ فرماتے ہیں : بھائی !حضرت شیخ مدنی کا ذکر کیا پوچھتے ہو پہلے تو ہم یوں ہی سمجھتے رہے مگر وقت کی نزاکتوں اور ہنگامہ آرائیوں میں جب ہم نے اس مردِ مجاہد کی جانب نگاہ کی تو جہاں شیخ مدنی کے قدم تھے وہاں اپنا سر پڑا ہوا دیکھا ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب دامت برکاتہم نے حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائیپوری قدس سرہ کی خدمت میںحضرت اقدس مولانا مدنی نوراللہ مرقدہ کی تجہیز وتکفین وغیرہ کا حال تحریر فرمایا کیونکہ آپ ان دنوں لاہور میں صوفی عبدالحمید صاحب رحمةاللہ علیہ کے یہاں جیل روڈ میں قیام فرماتھے۔انھوںنے لکھا تھا کہ دارالحدیث میں جنازہ چہرۂ مبارک کھول کر رکھ دیا گیا اس کے بعد تحریر تھا کہ غلبۂ انوار سے چہرہ اور کفن ہمرنگ معلوم ہوتے تھے وغیرہ۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلو م دیوبندتحریر فرماتے ہیں : اس خط کا جو مضمون تھا اس کے قریب مضمون حضر ت مولانا قاری محمد طیب صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند نے تحریر فرمایا ہے کہ (حضرت رحمة اللہ علیہ کی) زندگی بھی خوب گزری اور موت بھی پاکیزہ پائی طاب حیاومیتا بعد مُردن چہرہ پر نور انیت اور چمک غیر معمولی تھی ۔روشنی میں چہرہ کی چمک دمک اور اس کا جمال نگاہوں کو سیر نہیں ہونے دیتا تھا لبوں پر ایک عجیب مسکراہٹ تھی جس کی کیفیت الفاظ میں نہیں آسکتی جو یقینا مقبولیت عنداللہ اور اسی کے ساتھ مو ت کے وقت بشاشت و طمانیت کی کھلی علامت تھی جو مقبولیت زندگی میں تھی وہی موت کے بعد بھی رہی۔ اسی محبوبیت کا نتیجہ ہے کہ وصال کی خبر آناًفاناً ہوا پر دوڑ گئی دنیا کے بڑے بڑے ممالک نے ریڈیو پر وصال کی خبر نشر کی اور ہند او ر بیرون ہند سے تعزیتی فون، تار اور خطوط کا تانتا بندھ گیا ۔وصال کے بعد ایک بجے شب تک خدا ہی جانتا ہے کہ انسانوں کا ہجوم کہاں سے ٹوٹ پڑا کہ دارالعلوم کا وسیع احاطہ ہجوم سے اُبل پڑا ہجوم اور