ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
کلمات سُنے ہیں وہ ایک حدیث پاک کے ہیں : اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَالشُّکْرُ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ایک اور دُعاء : اَللّٰھُمَّ بَلِّغْنِیْ وَبَلِّغْ جَمِیْعَ مَنْ اَوْصَانِیْ بِالدُّعَآئِ وَجَمِیْعَ مَنْ لَّہ حَقّ عَلَیَّ اِلَی الْمَقَاصِدِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاکْشِفْ عَنِّیْ وَعَنْھُمْ سَآئِرَ الْکُرُبَاتِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہِمْ وَ بِمَقَاصِدِ ھِمْ وَکُرُ بَاتِہِمْ وَاَنْتَ اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْنَ وَاَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ حَیِیی کَرِیْم تَسْتَحْیِ اَنْ تَرُدَّ یَدَ الْعَبْدِ صِفْرًا اِذَا رَفَعَ الْاَکُفُّ اِلَیْکَ وَصَلِّ عَلٰی اَحَبِّ خَلْقِکَ اِلَیْکَ وَاَکْرَمِھِمْ لَدَیْکَ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَصَحْبِہِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی۔ آپ نے ابتداء دور میں یہ خواب دیکھا تھا کہ : ''تمہیں امام زماں بنائیں گے''۔ یہ اس خواب کے پورا ہونے کی علامت ہے۔ آدمی کا جتنا علاقہ ہوتا ہے اسے اتنے علاقہ سے تعلق ہوتا ہے ۔اگر کسی کاموردِ فیض پوری اُمّت ہوگی تو اسے پوری اُمّت سے تعلق ہوگا ۔ او ر ایسا ہی شخص باطناً امام زماں ہوگا۔ علامہ شامی نے ایک روایت بھی دی ہے کہ نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے اُمّتِ محمدیہ کے لیے مغفرت عامہ کی دُعاء کرنی چاہیے ۔اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِاُمَّةِ مُحَمَّدٍمَغْفِرَةً عَامَّةً اس لیے ہمیں بھی اس حدیث پر عمل کرناچاہیے۔ ١ وفات : حضرات صحابۂ کرام جناب رسالت مآب ۖ کے فیوض ِمبارکہ کا کامل'' پرتو'' ہیں ان حضرات میں وفات کے وقت کے حالات اور خیالات کے لیے سیّدنا فاروق اعظم اور سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے ارشادات ہر مسلمان کو پیشِ نظر رکھنے چاہئیں ۔ حضرت فاروقِ اعظم کے ہاتھوں اسلام کو وہ سربلندی نصیب ہوئی کہ جس کی آج تک مثال بھی نہیں قائم ہوسکی اور پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہوگیا اور ہر جگہ مسلمان حکومت نے اس قدر استحکام پکڑا کہ آج تک ان ممالک میں مسلمانوں ہی کی حکومت چلی آرہی ہے جس کا بے حساب ثواب فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو پہنچتا ہے چاہے کوئی جانے نہ جانے چاہے نیت کرے نہ کرے۔ لیکن وہ اپنے دورِ خلافت کی تمام نیکیوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جس کا ظہور شہادت کے وقت زخمی ١ خود حضرت اقدس والد صاحب رحمہ اللہ کا بھی عمل ایسا ہی تھا۔ (محمود میاں غفرلہ )