ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
عبادت کوحرام اور ظاہر ی ومعنوی گندگیوں سے پاک کرکے پوری پوری طرح پورے پورے ذرائع سے ادا کریں۔ ذکر رسول کے مروجہ غلط طریقے : اب عرض کیا جاتا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ اس عبادت کی ادائیگی میں کس قدر قصور اور کوتاہی کررہے ہیں یا کس قدر گستاخی وبے ادبی کا ارتکاب کر رہے ہیں تاکہ سب لوگوں کو ان سے بچنے کا اہتما م ہو سکے۔ ذکر رسول ۖ کی وسعت آپ ملاحظہ کر چکے ہیں اس کی ادائیگی کی وسعت آپ کے سامنے آچکی ہے اس کے شعبوں کے مدارج بعض فرض بعض واجب بعض سنت بعض مستحب بعض اصل مقصود بعض تابع یہ سب آپ ملاحظہ کر رہے ہیں اب صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر شعبہ کو حسب ِدرجہ مکمل طریقہ سے ادا کیا جائے۔ بعض لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں کہ فرض وواجب کاقطعاً اہتما م نہیں ایک امر مستحب کو نہایت مہتم بالشان بنالیتے ہیں یہ بات ٹھیک نہیں بعض لوگ حضور ۖ کے غیر اختیاری کا توذ کرکرتے ہیں اور اختیاری اعمال کا ذکر تک نہیں کرتے اس میںنفس و شیطان کی آمیزش معلوم ہوتی ہے کہ عمل میں مشقت ہے اور غیر اختیاری کے ذکر کرنے اور سن لینے میں لذت ،وہ اس طرح عمل کی بات پر پردہ ڈالتا اور اس سے محروم کرتا ہے۔ بعض لوگ د ل دماغ کی بات روح اور اعضا ء کے ذکر کرنے کو بیان بھی نہیں کرتے نہ اس کی ضرورت سامنے لائی جاتی ہے حالانکہ اصل ذکر رسول اختیاریات اور ان تمام کا کام ہے بعض لوگ احکام وتعلیم و تلقین کے عمل بلکہ بیان کو بھی ذکر رسول کے خلاف قرار دیتے ہیں یہ ان کی کوتاہ فہمی ہے بعض لوگ بعض غیر اختیاری امور کے کرنے کو عمربھر کے گناہوں کا کفارہ قرا ر دیتے ہیں یہ سخت ترین شیطانی حملہ ہے کہ یہ ذکر محض مستحب ہے تمام عمر بھی نہ ہونے سے نجات میں خلل نہیں تمام عمر ہونے پر فرائض و واجب کے خلل کے وقت عذاب سے بچا نہیں سکتا۔ یہ عیسائیوں کی طرح مذہب کو فضول قرار دینے جیسا ہو گیا۔ کسی نبی یا ولی کا دن منانا ہندوانہ او ر مشرکانہ رسم ہے : وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو کفارہ قرار دے کر تمام جرائم کا دروازہ کھول دیتے ہیں بعض لوگ سارے سال سوکر صرف ربیع الاول میں جاگتے ہیں اور کچھ ذکر رسول کرتے ہیں لیکن ذکر رسول کی وسعتوں کاتقاضا ہے کہ کامل ذکر رسول ہر ہر وقت کاکام ہے کوئی سیکنڈ بھی اس سے خالی رہنا صحیح نہیں پھر کسی دن یا وقت کو متعین کرنا اس کو ضروری یا افضل قرار دینا ہے دونوں باتیں بغیر شریعت کے بتائے جرم ہیں۔ بعض لوگ عید یا ڈے مناتے یاد گار قرار دے کر کرتے ہیں تو اسلام میں یادگار اور ڈے کی کوئی اصلیت نہیں ورنہ حضور انبیا ء سابقین کی اور صحابہ حضور کی یا سنہ ٦٠٠ھ سے پہلے کوئی مسلمان تو مناتے۔یہ ہندوئوں اور انگریزوں سے لی ہوئی رسم محض ہے اور ان کی مشابہت سے جرم ہے ۔بعض لوگ بطور کھیل یا تماشا