ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
ماہرین معاشیات ہیں اور جس کا اپنا مرکز اقتصاد اسلامی ہے تعجب خیز ہے بزناس کی ممبر بننے والی عظیم اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جن سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ واقعی تحقیق کرسکیں گے کیونکہ وہ کہاں سے کریں اور کیسے کریںاس کا ان کو کچھ پتہ ہی نہیںہوگا۔اس کے بالمقابل مولانا تقی عثمانی اور مولوی عمران ا شرف عثمانی کے لیے یہ تحقیق انتہائی آسان تھی ۔ (تیسری صورت) : '' کسی شخص کا اصل مقصد مارکیٹنگ سسٹم میں شامل ہونا ہے اور پراڈکٹ سے استفادہ اصل مقصد نہیں بلکہ پراڈکٹ محض اس بنا ء پر حاصل کر رہاہے کہ مارکیٹنگ سسٹم میں شمولیت پر و ڈکٹ کی خریداری کے بغیر ممکن نہیں تو اس سے اجتناب کرناچاہیے کیونکہ اگر پروڈکٹ کی بازای قیمت جمع کردہ فیس سے کم ہوتب تو یہ دوسری صورت کی طرح واضح قمار ہے جو ناجائز ہے اور اس سے بچنا واجب ہے،اور اگر پراڈکٹ کی بازاری قیمت جمع کردہ رقم کے کم ازکم برابر بھی ہوتب بھی پروڈکٹ کے مقصود نہ ہونے کی وجہ سے یہ قمار کے مشابہ ضرورہے نیز اس میں کمیشن ایجنسی پروڈکٹ کی خریداری کے ساتھ مشروط ہونے کی خرابی بھی ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے''۔(فتوٰ ی دارالعلوم) تبصرہ : (i) اوپر ہم بتا چکے ہیں کہ خود بزناس کے دفتر کے اعتراف کے مطابق کم از کم ٧٥ فیصد کا مقصد تو صرف مارکیٹنگ سسٹم میںشمولیت ہوتا ہے پروڈکٹ سے استفادہ نہیں ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ دارالعلوم والے بھی اس حقیقت سے ناآشنا نہ ہوں گے ۔ عظیم اکثریت کو دیکھتے ہوئے خود ان کی ذکر کردہ خرابیوں کی وجہ سے دارالعلوم والوں کو چاہیے تھا کہ وہ بزناس کے گورکھ دھندے کو کھل کر ناجائز کہتے لیکن انہوں نے اگر مگر کا چکر چلادیا ۔اور بزناس کمپنی اپنے ناجائز کاروبار کے جواز کے لیے اس کو عام لائسنس سمجھ رہی ہے۔ ii) ( پھر یہ واضح طورپر لکھنے کے باوجود کہ'' اس میں کمیشن ایجنسی پروڈکٹ کی خریداری کے ساتھ مشروط ہونے کی خرابی بھی ہے ''لیکن اس کھلی خرابی کے زہر کا تریاق بھی خود ہی عطا فرمادیا ۔لکھتے ہیں : ''اس میں وکالت پر اڈکٹ کے معاملہ کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ کمیشن ایجنٹ صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو کسٹمر ہے لیکن چونکہ وکیل بنانے کا اختیار موکل کوہے ۔اور وہ اگر یہ اصول بنا لے کہ وہ صرف اپنے گاہک ہی کو وکیل بنائیگا تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں'' ۔(فتوٰ ی دارالعلوم) بھلا بتائیے جب مقصود مارکیٹنگ سسٹم میں شمولیت ہو یعنی کمیشن ایجنسی کی تحصیل ہوتو پروڈکٹ کی خریداری اس کے لیے شرط ہی تو بنی اور اسی کو تو دارالعلوم کے فتوے میں خرابی کہا بھی گیا لیکن اس کے بعد پھر اسی فتوے کے الفاظ کے الٹ پھیر میں وہ خرابی خود بخود کالعدم بھی ہوگئی۔فیا للعجب