ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی فرماتے ہیں : جو شخص آنحضرت ۖ سے طبعاً ومزاجاً جتنا زیادہ قریب ہوگا اسی قدر اس میں حکمت زیادہ ہوگی یعنی اس کی قوت نظری وقوت عملی دونوں کا کمال بھی اسی درجہ کا ہوگا اس معیار پر حضرت (شیخ الاسلام)مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت عظمیٰ کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آئیگا کہ حضرت مرحوم سعادتِ حقیقی کے اس مرتبہ علیا پر فائز تھے جو سرور کائنات ۖکے اضطراری اتباع یا پیروی سے حاصل ہوتاہے آپ کا ذکر وفکر، طورطریق ،نشست و برخاست معاملات، شجاعت و جرأت ،شوقِ جہاد و غزاء اعلائے کلمة اللہ کے لیے بے تابی اور بے چینی دشمنوں کے ساتھ بھی محبت دوستوں کے ساتھ مخدومانہ نہیں خادمانہ برتائو۔''اشداء علی الکفار '' کے ساتھ'' رحماء بینھم'' کی مکمل تصویر ذاتی طورپر بے حد متواضع اور فروتن لیکن اسلامی او ر دینی امور میں حددرجہ متشدداور غیو رو خوددار ،رات رات بھر تہجد ونوافل کے ساتھ قید وبند بھی اور دارورسن کا خیر مقدم بھی ،اصلاح باطن اور روحانی ارشادو ہدایت بھی ،خدام وگھر والوں کے ساتھ حسن معاشرت، خندہ جبینی اور لطف ومزاح اور کسی امر شرعی کے عدم امتثال پر زجر و توبیخ بھی اور پھر سب کچھ کسی حظ نفس کی خاطر نہیں ۔بلکہ اللہ اورصرف اللہ کے استرضاء اور اُسوۂ رسول کے اتباع کے لیے۔غور کرنا چاہیے کہ اس زمانہ میں سعادت حقیقی اور حکمت ربانی کا ایسا مظہرِ کامل او ر کون ہوگا جس میںآنحضرت ۖ کی جامع وہمہ گیر حیات طیبہ کا انعکاس اس طرح نظر آتا ہو ۔(واقعات ص ٢٤٠) حضرت حاجی احمد حسین صاحب لاہر پوری فرماتے ہیں : حضرت پیر غلام مجدد صاحب سندھی شہید (اسیر کراچی ) جن کے تقریباًسولہ لاکھ مریدین درج فہرست تھے۔ زیادہ تر تلاوتِ قرآن مجید میں مصروف رہتے تھے میری حاضری پر قرآن مجید کو بند کرکے فرمایا'' میرے ہاتھ میں توقرآن مجید ہے بحلف کہتا ہوں کہ جیل میں میںنے جو حالات مولانا مدنی کے بچشم خود دیکھے ہیں ان کی بناء پر میری رائے ہے کہ اس وقت روئے زمین پر مولانا صاحب کا ثانی بزرگی اور اتباعِ شریعت کے لحاظ سے نہیں ہے۔ آپ ہرگز مولانا صاحب کا دامن نہ چھوڑئیے اگر مولانا صاحب نہ ہوتے تو میں آپ کو مرید کر لیتا۔'' غرض کہ پیر صاحب کی سعی و