ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
اقامت کے لیے چنا تھا لہٰذا ان کا مقامِ فضیلت جان لو اور ان کے نشاناتِ قدم کی پیروی کرو او ر جہاں تک تم سے ہو سکے ان کے اخلاق اور ان کی طبیعت کو مضبوطی سے اختیار کرو ۔ کیونکہ بلاشبہہ وہ صحیح راستہ پر پختہ اور قائم رہے ہیں۔ بالکل یہی رنگ حضرت اقدس مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا بھی نظر آتا ہے کہ وفات سے پہلے جب ڈاکٹروں نے چلنے پھرنے سے روک دیا تو جماعت میں نہ جانے پر بہت رنجیدہ رہتے تھے ۔وفات سے ایک روز قبل ان کے قائم مقام مدرسِ بخاری حضرت مولانا سیّد فخرالدین صاحب مراد آباد جانے لگے تو رخصت ہوتے وقت ملنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ پررقت طاری ہو گئی بے حد ملال کا اظہار فرمایا کہ میری ساری عمر ضائع ہوگئی کوئی کام نہیںکیا اور اب مسجد تک بھی نہیں جا سکتا ۔یہ کیفیت اتنی بڑھی کہ خادم خاص اور خلیفہ خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب رحمہ اللہ ونور اللہ مرقدہ نے ضروری سمجھا کہ مولانا فخرالدین صاحب کو اسی حال میں اُٹھا لائے ( قاری اصغر علی صاحب مولانا سیّد فخرالدین صاحب کے شاگرد تھے۔ رحمھما اللہ رحمةواسعة)۔ اس واقعہ سے اگلے روز چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقفہ گزرا تھا کہ ظہر کے وقت قیلولہ کی حالت میں آپ کی وفات ہوئی۔ محرم ١٣٧٧ھ ١٩٥٧ء میں سفر مدر اس کے دوران علالت پیش آئی دیوبند واپسی پر ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ قلب کا پھیلائو بڑھ گیا ہے مقامی اور بیرونی ڈاکٹروں کا علاج ہوتا رہا مگر افاقہ نہ ہوا پھر یونانی علاج شروع کیا گیا اس سے مرض میں قدرے تخفیف ہوئی ۔١٠ ،١١ جمادی الاولیٰ (٣،٤ دسمبر )کو طبیعت کافی پر سکون رہی ۔١٢جمادی الاولیٰ (٥دسمبر )کی صبح کو طبیعت کافی بشاش ہوگئی کئی دن کے بعد دوپہر کو ہلکی پرہیزی غذا تناول فرمائی پھر لیٹ گئے ازخود بیدار نہ ہونے پر ٣ بجے کے قریب نماز ظہر کے لیے جب بیدار کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ آپ واصل بحق ہوچکے ہیں ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ٩بجے شب جنازہ دارالعلوم دیوبند کے وسیع دارالحدیث میں لا کر رکھا گیا اور زیارت کرنے والے ایک طرف سے آتے اور دوسری طرف سے باہر جاتے رہے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب دامت برکاتہم نے نماز جنازہ پڑھائی نصف شب کے بعد تدفین عمل میں آسکی مدرسہ سے قبرستان تک جنازہ کے پہنچنے میں کافی وقت لگا۔دیوبند جیسے چھوٹے سے قصبہ میں فوراً ہی پچاس ہزار کے قریب لوگ پہنچ گئے جنہوں نے شرکت کی دارالعلوم کے قبرستان میں حجة الاسلام حضرت اقدس مولانا نانوتوی اور حضرت شیخ الہند مولانا محمو دحسن صاحب رحمہم اللہ کے پاس اس طرح قبر کے لیے جگہ نکل آئی جیسے زمین وسیع ہو گئی ہو ۔ مدتوں سے وہاں جاتے رہنے والوں کے علم میں ہے کہ وہاں قطعاً کسی قبر کی جگہ نہ تھی۔ (ص٢٢٥واقعات)