ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2003 |
اكستان |
|
ہونے کی حالت میں اُن کی زبانِ مبارک سے ان الفاظ سے ہوا : وَدِدْتُ اَنَّ ذَالِکَ کَفَافاً لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ (بخاری شریف ص٥٢٤ س٥) میں یہ چاہتا ہوں کہ امارت کے معاملات سے برابر سرابر نجات ہو جائے کہ نہ مجھے نقصان ہونہ نفع۔ صحابۂ کرام کی یہ قلبی حالت جناب ر سالت مآب ۖ کی تعلیم و تلقین کے اثر ِخاص سے تھی اور اس کا ایک فائدہ تو ظاہر ہی ہے کہ ایسے شخص کی نظر جب اپنی نیکیوں پر ہوگی ہی نہیں تو وہ نیکیاں خداوندکریم کے یہاں محفوظ ہی رہیں گی کیونکہ نیکیوں کی قیمت کم کرنے والی چیز تو نیکیوں پر گھمنڈ اور نازہے۔دوسری طرف ایسے شخص کی نظر اپنی تقصیرات پر ہوگی اور اس کی وجہ سے استغفار کا غلبہ ہوگا یہ خود ایک ایسا عمل ہے جو ہر تقصیر کو نیکی بنا دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تواضع کا یہ حال ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ان صحابۂ کرام کی پیروی کرو جو دنیا سے جا چکے ہیں کیونکہ ان کی آخر وقت تک استقامت سامنے آچکی ہے ۔ مَنْ کَانَ مُسِنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَاِنَّ الْحَیَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَةَ تم لوگوں میں سے جو کسی کی پیروی کرنی چاہے تو اسے اس کی پیروی کرنی چاہیے کہ جو وفات پا چکا ہے کیونکہ زندہ شخص آزمائش سے محفوظ نہیں ہے (جب تک زندہ ہے آزمائش کی گھڑیاں باقی ہیں)۔ اس طرح آپ نے اسلام کا ایک بہترین اصول تعلیم فرمایا او ر اپنا دامن بھی بچایا ۔پھر صحابۂ کرام کی تعریف کی اور ان کی منقبت وافضلیت بیان فرمائی کہ وہ علمی گہرائی،نیک سرشت اور سادگی میںکیا ہی بلند مقام رکھتے تھے۔ اولئک اصحاب محمد ۖ کا نوا افضل ھٰذہ الامة ابرھا قلوبا واعمقھا علما واقلھا تکلفا۔ وہ رسول کریم علیہ الصلٰوة والسلام کے صحابی اس اُمّت میںسب سے افضل تھے سب سے زیادہ نیک دل تھے سب سے زیادہ علمی گہرائی اور بصیرت کے حامل تھے اور ان کے مزاج میں نہایت کم تکلف تھا۔ اختارھم اللّٰہ لصحبت نبیہ ولاقامة دینہ فاعرفوا لہم فضلھم واتبعوھم علی اثرھم وتمسّکوا بما استطعتم من اخلاقھم وسیرھم فانھم کانوا علی الھدی المستقیم ۔(مشکٰوة ص٣٢ باب الاعتصام بالکتاب والسنتہ) (یوں سمجھو )کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی ۖ کا ساتھی بننے کے لیے او ر اپنے دین کی