یہ عمل فرض و واجب نہیں ہے، بشرطِ وسعت مسلمانوں پر مستحب و مسنون ہے۔
إنما أخذ أصحابنا الحنفیۃ في ذٰلک بقول الجمھور وقالوا باستحباب العقیقۃ، لما قال ابن المنذروغیرہ:’’إن الدلیل علیہ الأخبار الثابتۃ عن رسول اللہ ﷺ وعن الصحابۃ والتابعین‘‘، بعدہ قالوا:’’وھو أمر معمول بہ في الحجاز قدیماً و حدیثاً ‘‘۔وذکر مالک في المؤطا:’’إنہ الأمر الذي لا اختلاف فیہ عندھم‘‘۔وقال یحیٰ بن سعید الأنصاري التابعي، أدرکت الناس وما یدعون العقیقۃ عن الغلام والجاریۃ۔
(إعلاء السنن،کشف الحقیقۃ عن أحکام العقیقۃ، باب العقیقۃ:17 ؍114، إدارۃ القرآن)
بعض فقہاء و علماء نے اسے بدعت قرار دیا ہے، جبکہ جمہور فقہاء کے نزدیک ایسا نہیں ہے،ہمارے اکابرین نے ممانعین کی طرف سے یہ تأویل کی ہے کہ ان حضرات کی مرادجاہلیت والے طریقے کی نفی کرنا ہے، کہ جاہلیت والا عقیقہ اسلام میں منسوخ ہے، لہٰذا جاہلیت والے طریقے پر عقیقہ نہیں کرنا چاہیے۔
قلت :وإنما حملتہ علیہ عبارۃ محمد في ’’مؤطئہ‘‘، قال محمد:’’العقیقۃ بلغنا أنھا کانت في الجاھلیۃ، وقد جُعِلَت في أول الإسلام، ثم نسخ الأضحیٰ کل ذبح کان قبلہ…إلخ فلم أزل أتردد في مراد الإمام، حتیٰ رأیت في کتاب ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ عن الطحاوي