جواب دیا کہ ’’شہاب‘‘(یعنی: شعلے) کا بیٹا ہوں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد معلوم کیا کہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ’’حرقہ‘‘ (یعنی: آگ جلانے والے ) قبیلہ سے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ تم کہاں رہتے ہو؟تو اس نے جواب دیا کہ ’’حرّۃ النار‘‘ (آگ کی گرمی ) میں رہتا ہوں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ یہ ’’حرّۃ النار ‘‘ کہاں واقع ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ ’’ذات اللظیٰ‘‘ (یعنی: بھڑکتی ہو ئی آگ کے علاقے)میں ہے،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خبر لو، وہ جل گئے ہیں ،راوی کہتے ہیں کہ اس نے جا کردیکھا تو ویسے ہی پایا، جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔
عن یحيٰ بن سعید؛ أن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال لرجل: ما اسمک؟ فقال: جمرۃ، فقال: ابن مَن؟ فقال: ابن شھاب، قال: ممن؟ قال: من الحُرَقۃ، قال: أین مسکنک؟ قال: بحرۃ النار، قال: بأیھا؟ قال: بذات لظّی، قال عمر: أدرک أھلک، فقد احترقوا، قال[الراوي]: فکان کما قال عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ۔
(المؤطا لابن الإمام مالک،کتاب، باب ما یکرہ من الأسماء،رقم الحدیث:2790،2؍566،دارالغرب الإسلامي)
مندرجہ بالا روایات سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے، کہ ناموں کے اثرات انسان پر پڑتے ہیں ، لہٰذا نام رکھنے سے قبل خوب اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ ہم کس طرح کا نام اختیار کر رہے ہیں ؟!