عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ:’’ أن النبي ﷺ أمر بتسمیۃ المولود یوم سابعہ، ووضعِ الأذیٰ عنہ، والعق‘‘۔
(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ما جاء في تعجیل إسم المولود، رقم الحدیث:2758 ،5؍132،مطبعہ مصطفیٰ البابي الحلبي)
اس کے علاوہ اگر بچے کا نام کسی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد رکھنا پڑ جائے، یا نام رکھنے میں ساتویں دن سے کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم بلاوجہ بہت زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت ہے،ساتویں دن سے قبل اگر نام رکھنا تجویز ہو رہا ہو تو اس کی یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے، کہ نام تو پہلے سوچ لیا جائے ،لیکن طے ساتویں دن کر لیا جائے۔
وقال الخطابي:’’ذھب کثیر من الناس إلی أن التسمیۃ تجوز قبل ذلک‘‘۔ وقال محمد بن سیرین و قتادۃ والأوزاعي:’’ إذا ولد وقد تم خلقہ، یسمیٰ في الوقت إن شاء‘‘۔ وقال المھلب:’’وتسمیۃ المولود حین یولد وبعد ذلک بلیلۃ أو لیلتین وما شاء إذا لم ینوِ الأبُ العقیقۃَ عند یوم سابعہ جائز، وإن أراد أن ینسکہ عنہ، فالسنۃ أن تُؤَخَّر التسمیۃ إلیٰ یوم النسک، وہو السابع‘‘۔
(عمدۃ القاري، کتاب العقیقۃ، باب تسمیۃ المولودغداۃ یولد لمن یعق عنہ و تحنیکہ:21؍125،دارالکتب العلمیۃ)