نبی (ﷺ) نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر افضل ہونے کا ذریعہ صرف پاک بازی اور خدا ترسی کو قرار دے کر افرادِ قوم کے لیے ترقی کرنے اور نام آور ہونے کا راستہ بنادیا۔ اسلام کی حکومت اصل میں جمہوری حکمت تھی۔ مسلمان اپنے حاکم اور سردار کو خود ہی چن لیا کرتے تھے۔ جس کو خلیفہ کہتے ہیں کچھ عرصہ تک مسلمان اس طریقہ کی پیروی کرتے رہے۔ چناںچہ خلافت کی بیعت اسی حاکم انتخاب کا ایک رمز اور جمہوری حکومت کا نشان ہے۔
نبی (ﷺ) نے یہ کہہ کر کسی عرب کو غیر عرب پر اور غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں، غیر عرب آدمیوں کے لیے قبولِ اسلام میں آسانی پیدا کردی۔ اور یہ ارشاد کرکے ’’تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور جو شخص کنبہ الٰہی کو زیادہ نفع پہنچائے وہی خدا کا پیارا ہے‘‘ غیر مسلم اقوام کے لیے اسلامی ممالک اور حکومتوں میں بآرام زندگی بسر کرنے کا سامان کردیا۔
نبی (ﷺ) نے انسان کی خانگی پر بھی گہری نظر ڈالی اور شادی بیاہ کے معاملات، نسل بڑھانے اور ترکہ و میراث تقسیم کرنے کی ہدایتیں مرتب کیں، اور عورت کی شان بڑھا دی۔ معاملات دنیا وی پر نظر فرما کر لوگوں کے کاروبار اور قصوں اور قضیوں کے فیصل کرنے کے قوانین وضع کیے اور حکمرانی کے آئین بنائے۔ انھوںنے سلطنت کے مالی صیغہ کو بھی ناممکن نہیں چھوڑا اور اس غرض سے بیت المال (خزانہ عامرہ) کے قوانین وضع کیے۔
علم کی طرف ان کی توجہ بہت زیادہ مبذول تھی۔ انھوںنے علم و حکمت کو مؤمن کا گم گشتہ مال قرار دیا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ علم ضرور طلب کریں، خواہ اس کے لیے انھیں اقصائے مشرق کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے علم و ہنر کی ہر شاخ سے خوشہ چینی کی اور قصرِ علم و کمال کا کوئی دروازہ ایسا نہیں چھوڑا جس کو انھوںنے نہ کھولا ہو۔ مسلمانوں کے ایامِ عروج میں علم کو جو فروغ حاصل ہوا ہے دنیا اور دنیا کی تاریخ اس کی شاہد ہے اور رہے گی۔
پس کیا جس شخص نے یہ تمام کام کیے وہ دنیا کا اعظم ترین انسان نہیں ہے؟ ہے اور بے شک ہے۔1 (1 از اخبار عربی)
محمدﷺ: عرب جہاں یہ پیدا ہوئے، فی الحقیقت ایک نئے طرز کی دنیا ہے ۔یہ ملک کچھ عجیب و غریب ہے، ہر چار طرف بالو ہی بالو نظر آتا ہے، دن میں تمازتِ آفتاب اور دھوپ کی ناقابلِ برداشت شدت و بادِ سموم کے جھونکے، رات میں بلند تاروں بھرا سرد آسمان، آدم نہ آدم زاد بجز ذات اللہ۔
یہاں کے باشندے شریف العادت، ذکی الحس، اور حد درجہ کے مہمان نواز ہیں۔ وہ باتیں بنانے والے نہیں ہیں، بلکہ خموشی کی صفت ان میں زیادہ ہے۔ سچائی کے نہایت سخت پابند ہیں۔ اعلیٰ درجہ کے شاعر اور فصیح للسان ہیں اور دوسروں کو اپنے