چھایا ہوا ہے دیدہ و دل پر
پیش نظر ہے روضۂ اطہر
آنکھیں بھی روشن دل بھی منور
تشنہ لبوں پہ بخشش پیہم
صلی علیک اے ساقی کوثر
بادہ عرفاں، کیف مجسم
جھوم رہے ہیں شیشہ و ساغر
وقف زیارت چشم تمنا
مہر سکوت شوق لبوں پر
یوں ہیں وہ ہم آغوش تصور
بھول گیا ہوں خود کو بھی یکسر
دیکھتے ہیں وہ میری جانب
دل کو ہوا محسوس یہ اکثر
برق تجلی کوند رہی ہے
جالی کے باہر، جالی کے اندر
گنبد خضرا، شمع تجلی
محو نظارہ ہیں مہ و اختر
حلقہ بگوش بام حرم ہیں
کس کے پیامی ہیں یہ کبوتر
جذب سواد شام مدینہ
لرزاں لرزاں خسرو و خاور
جلووں کو ان کے خوب ہی دیکھا
دور بھی ہٹ کر، پاس بھی جاکر
حاصل زیست انعام حضوری
جس کو بھی ہو جائے میسر
مجھ کو بھی لے آغوش میں اپنی