ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
یہ لوگ ٢٥ دسمبر کو مسیح کا یومِ پیدائش مناتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسیح کا جشن نہیں اپنی عقل کا ماتم ہے۔ پہلے آپ ان کی الہامی کتاب انجیل لوقا کے دوسرے باب کے ابتدائی آٹھ فقرات پڑھ لیں۔''اُن دنوں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں ۔یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کو رینس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لیے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف بھی '' لمیلی کے شہر ناصرة''سے دائود کے شہر بیتِ لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لیے کہ وہ دائود کے گھرانے اور اولاد سے تھا تاکہ اپنی منگیترمریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اُس کے وضع حمل کا وقت آگیا اور اُس کا پہلو ٹا بیٹا پیدا ہوا۔ اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کرجرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی اُس علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے ''(انجیل لوقا باب ددم ١۔٨)۔یہ عبارت بلا تاویل و تحریف ببانگِ دُہل اعلان کر رہی ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کی ولادت اُس موسم میں ہوئی جب چرواہے رات میدان میں رہتے تھے یہودیہ (اسرائیل) پہاڑی علاقہ ہے جہاں دسمبر کے مہینے میں شدید برف باری ہوتی ہے جو لوگ بھی یہودیہ کے جغرافیائی حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں چرواہے صرف جون اور جولائی کے مہینے میں باہر میدانوں میںرہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انجیل لوقا کے عیسائی مفسر پرنسپل اے ۔جے۔ گریوایم ۔اے۔ ڈی نے اس مقام پر صاف طورپر اقرار کیا ہے کہ یہ موسم دسمبر کا نہیں ہو سکتا(تفسیرلوقا باب دوم)۔اور بشب جارنس اپنی کتاب ''رائز آف کرسچینز'' کے صفحہ ٧٩پر لکھتے ہیں ''کہ اس تعین کے لیے کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ ٢٥ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کادن تھا کیونکہ دسمبر کے مہینے میں یہودیہ میں عام برف باری ہوتی ہے تو چرواہے کس طرح میدان میں رہ سکتے تھے'' اس تحقیق سے جس طرح دورِ حاضر کی عیسائی دنیا کی مذہبی سرد مہری کا پتہ چلتا ہے اسی طرح انجیل نویسوں کے علمی پندار کا بھانڈا بھی چوراہے میں پھوٹتا ہے کہ ایک جغرافیہ دان جب انجیل کے اس مقام کو پڑھے گا تو انجیل نویس کے علمی وقار کے متعلق کیا رائے قائم کرے گا۔ باقی اہلِ خانہ کی صحت اور ا پنی صحت کا حال تحریر فرمائیں، محمدا کمل کو پیار۔ فقط والسلام محمد امین