Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003

اكستان

58 - 66
یہ لوگ ٢٥ دسمبر کو مسیح   کا یومِ پیدائش مناتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسیح کا جشن نہیں اپنی عقل کا ماتم ہے۔ پہلے آپ ان کی الہامی کتاب انجیل لوقا کے دوسرے باب کے ابتدائی آٹھ فقرات پڑھ لیں۔''اُن دنوں ایسا ہوا کہ قیصر اوگستس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں ۔یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کو رینس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لیے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف بھی '' لمیلی کے شہر ناصرة''سے دائود کے شہر بیتِ لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لیے کہ وہ دائود کے گھرانے اور اولاد سے تھا تاکہ اپنی منگیترمریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے جب  وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اُس کے وضع حمل کا وقت آگیا اور اُس کا پہلو ٹا بیٹا پیدا ہوا۔ اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کرجرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی اُس علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے ''(انجیل لوقا باب ددم ١۔٨)۔یہ عبارت بلا تاویل و تحریف ببانگِ دُہل اعلان کر رہی ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کی ولادت اُس موسم میں ہوئی جب چرواہے رات میدان میں رہتے تھے یہودیہ (اسرائیل) پہاڑی علاقہ ہے جہاں دسمبر کے مہینے میں شدید برف باری ہوتی ہے جو لوگ بھی یہودیہ کے جغرافیائی حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں چرواہے صرف جون اور جولائی کے مہینے میں باہر میدانوں میںرہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انجیل لوقا کے عیسائی مفسر پرنسپل اے ۔جے۔ گریوایم ۔اے۔ ڈی نے اس مقام پر صاف طورپر اقرار کیا ہے کہ یہ موسم دسمبر کا نہیں ہو سکتا(تفسیرلوقا باب دوم)۔اور بشب جارنس اپنی کتاب ''رائز آف کرسچینز'' کے صفحہ ٧٩پر لکھتے ہیں ''کہ اس تعین کے لیے کوئی قطعی ثبوت نہیں کہ ٢٥ دسمبر ہی مسیح   کی پیدائش کادن تھا کیونکہ دسمبر کے مہینے میں یہودیہ میں عام برف باری ہوتی ہے تو چرواہے کس طرح میدان میں رہ سکتے تھے'' اس تحقیق سے جس طرح دورِ حاضر کی عیسائی دنیا کی مذہبی سرد مہری کا پتہ چلتا ہے اسی طرح انجیل نویسوں کے علمی پندار کا بھانڈا بھی چوراہے میں پھوٹتا ہے کہ ایک جغرافیہ دان جب انجیل کے اس مقام کو پڑھے گا تو انجیل نویس کے علمی وقار کے متعلق کیا رائے قائم کرے گا۔
باقی اہلِ خانہ کی صحت اور ا پنی صحت کا حال تحریر فرمائیں، محمدا کمل کو پیار۔		فقط  والسلام		  محمد امین

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
85 اس شمارے میں 3 1
86 حرف آغاز 4 1
87 درس حدیث 6 1
88 حضر ت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبی علیہ السلام 6 87
89 مزید خصوصیت : 6 87
90 حضرت عمر کا کوفہ کے لیے ان کو منتخب فرمانا : 7 87
91 طلباء کے فرائض 8 1
92 طلبا کا پہلا فرض : 8 91
93 طلبا کادوسرا فرض : 9 91
94 بقیہ : درس حدیث 10 87
95 الوداعی خطاب 11 1
96 جنت کیاہے ؟ : 12 95
97 جہنم کیا ہے : 12 95
98 علماء اور طلباء پر کیا لازم ہے : 12 95
99 تفصیلاً علم سیکھنا فرضِ کفایہ ہے : 13 95
100 مثال سے ضاحت : 13 95
101 دُنیاوی کاموں سے اسلام نہیںروکتا : 13 95
102 عالم دین کی خدمت کو نہیں چھوڑ سکتا : 14 95
103 فتنہ کا دور، دجال کی آمد : 14 95
104 پورے عالم کے اعتبار سے صدیاں دنوں کی طرح ہوتی ہیں : 14 95
105 دجال کی آمد سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے : 14 95
106 دجالی قوتیں نبی علیہ السلام کی سیاسی اور اقتدارسے متعلق پیشین گوئیوں سے خوب آگاہ ہیں : 15 95
107 خراسان ہمارا پڑوس اور اس کی اہمیت : 15 95
108 ''این جی او ''دجالی فتنہ ، غریب مسلمان ان کا پہلا نشانہ : 15 95
109 فقرکبھی کفر کا سبب بن جاتاہے : 16 95
110 اب پچھلے لوگوں جیسا ایمان مضبوط نہیں ہے : 16 95
111 کفر کا طریقۂ واردات : 17 95
112 ان کے ایمان بچانے کی ترکیب : 17 95
113 دجالی فتنہ کا ایک واقعہ : 18 95
114 سندھ اور پنجاب : 18 95
115 غریبوں کی مدد - نبیوں کی ترجیحات : 19 95
116 نبی علیہ السلام کی معاشرتی فلاحی سرگرمیاں : 19 95
117 آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں : 20 95
118 عبرتناک واقعہ : 21 95
119 ایک اور واقعہ : 22 95
120 آغا خانی اور شمالی علاقہ جات : 22 95
121 ایک اور ناپاک مقصد : 23 95
122 علماء اور طلباء کے اہم اہداف : 23 95
123 ذکر فکر کی طرف توجہ اور ا س کا فائدہ : 24 95
124 مثال سے و ضاحت : 24 95
125 ایک طالب علم کا اشکال اور اُس کا جواب : 24 95
126 بڑے حضرت کی ہر طالب علم اور مرید کو نصیحت : 28 95
127 حج 29 1
128 مفہوم اور فرضیت : 29 127
129 ١۔ احرام : 30 127
130 ٢۔ تلبیہ : 30 127
131 ٣۔ طواف : 31 127
132 ٤۔ حجرِاسود کا بوسہ : 31 127
133 ٥۔ سعی بین ا لصفّاوالمروہ : 31 127
134 ٦۔ وقوفِ عرفہ : 32 127
135 ٧۔ قیامِ مزدلفہ : 32 127
136 ٨۔ منٰی کا قیام اور قربانی : 32 127
137 ٩۔ حلق رأس : 33 127
138 ١٠۔ رمی جمار : 33 127
139 حج کے مصالح 33 127
140 انفرادی مصالح 34 127
141 ا۔ احساسِ عبدیت : 34 127
142 ٢۔ اظہارِمحبوبیت : 34 127
143 ٣۔ جہاد ِزندگی کی تربیت : 35 127
144 ٤۔ ماضی سے وابستگی : 36 127
145 اجتماعی مصالح 37 127
146 ١۔ اخوت کے جذبات کا پیدا ہونا : 37 127
147 ٢۔ غیر فطری عدمِ مساوات کا خاتمہ : 38 127
148 سیاسی مصالح 38 127
149 ١۔ احساسِ مرکزیت : 38 127
150 خالص دینی اور اُخروی مصالح 39 127
151 ١۔ یادِ آخرت : 39 127
152 ٢۔ گناہوں کی معافی : 39 127
153 ٣۔ حج کابدلہ جنت ہے : 40 127
154 ٤۔ حج کی جامعیت : 40 127
155 انتقال پر ملال 41 1
156 جیل سے حضرت اقدس کے نام ایک خط 42 155
157 ١٩٨٢ء میں ساہیوال جیل میں راقم نے ملاقات کی ۔اس موقع پر ایک خط 46 155
158 میجر جنرل (ریٹائرڈ) تجمل حسین 47 155
159 میجر جنرل ریٹائرڈتجمل حسین 48 155
160 سیّد العلماء والطلبائ 50 1
161 اہم اعلان 53 1
162 ولادتِ مسیح علیہ السلام اور ٢٥دسمبرتحقیقی جائزہ 55 1
163 دینی مسائل( جماعت کے احکام ) 60 1
164 جماعت ِثانیہ : 60 163
165 امامت کے فرائض : 61 163
166 عالمی خبریں 64 1
167 مسلم حکمران اور مقامِ عبرت 64 166
168 تنگ نظری کی انتہائ 64 166
Flag Counter