ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
شفقت اعتماد اورقرب اتنا زیادہ تھا کہ ان کو اس حد تک اجازت عطا فرمادی تھی اور دوسرے صحابی حضرت حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں '' صاحبُ سّر رسول اللّٰہ ۖ '' ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے راز دار ہیں کیونکہ بہت سی باتیں ایسی آپ ان سے فرمادیا کرتے تھے جو عام نہیں بتائی جاتی تھیں فتنوں کے بارے میں اور دیگر واقعات کے بارے میں جو آگے پیش آنے والے ہیں اور رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے ان کی خبر ان کو دی تھی اس لیے یہ ''صاحبِ سّر رسول اللّٰہ ۖ '' کہلائے تو وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ جو مشابہہ دیکھا ہے دَلّاً وسَمتاً وھَدیاً ''دَلّ '' کا مطلب تو ہوتا ہے ادائیں ،انسان کی ادائیں جو ہوتی ہیں ان میںمیںنے ان کو مشابہہ دیکھا ہے'' سَمت'' جو ہے وہ گویا ظاہری مشابہت نشانات سے اور سیرت،یہ کہا جا سکتا ہے۔''ھدیا''کا مطلب طبعاً تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے ادائوں میں بھی ملتے جلتے تھے اور سیرت اورطریقے میں بھی ملتے جلتے تھے۔ فرماتے ہیں من حین یخرج من بیتہ الی ان یرجع الیہ جب وہ گھر سے باہر آتے تھے اور گھر لوٹ کر جاتے تھے اس وقت تک ہم جو دیکھتے تھے تو ہمیں یہی محسوس ہوتا تھا، ہاں گھر میں وہ کیا کرتے تھے لاندری مایصنع فی اہلہ اذا خلا گھر میں جانے کے بعد جب وہ خلوت میں ہوں تو اُن کا کیا طریقہ تھا یہ ہمیں نہیں معلوم، اس کے بارے میں ہم نہیں کہتے کچھ بھی، مطلب یہ ہے کہ ان کی تعریف میں ہم وہ بات کر سکتے ہیںجس کوہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو وہ ہم نے یہ دیکھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام چیزوں میں جو سب سے زیادہ ملتے جلتے تھے تووہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت عمر کا کوفہ کے لیے ان کو منتخب فرمانا : بہت بڑے عالم تھے انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ بھیج دیا تھا وہاں (یعنی عراق میں ) جو مجاہدین تھے ان کے لیے ایک علاقہ بنا لیا تھا خاص کر لیا تھا تو اس میں بھیج دیا کہ آپ وہاں رہیں پڑھائیں وہاں عرب قبائل اور مجاہدین صحابہ کرام اُن کی اولاد یہ حضرات تھے۔ اِن (مجاہدین )کو انہوں(یعنی حضرت عمر)نے یہ تحریر فرمایا تھا جس جگہ کی آب وہوا یہاں (عرب)کی آب وہواکے موافق ہو وہ خطہ انتخاب کرلیں تو انھوں نے یہ(کوفہ کا) علاقہ انتخاب کیا تو وہاں پر انھوں نے زمینیں الاٹ فرمادیں تقریباً پندرہ سو صحابہ کرام وہاں رہتے رہے یہ بہت بڑی تعداد ہے دنیا میں کہیں ایسا مجمع نہیں ملتا اتنے حضرات ِصحابہ کرام کا، اس سے کچھ فاصلے پر اور شام کے درمیان عراق ہی میں ایک علاقہ ہے ''قرقیسیہ'' وہاں چھ سوصحابہ کرام تھے اتنی بڑی تعداد کا ایک شہر میں جمع ہو جانا اس کی مثال اور کوئی نہیں۔ (باقی صفحہ ٩ پر)