ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
انتقال پر ملال (تحریر : حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ) ٢٧ اکتوبر کو پاکستان آرمی کے سابق میجر جنرل تجمل حسین ملک اچانک عارضہ قلب کی وجہ سے انتقال کرگئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم پاکستان کے مشہور جرنیلوں میں سے تھے ۔ ١٩٧١ء کی پاک بھارت جنگ میں بحیثیت بریگیڈئیر سابق مشرقی پاکستان میں'' ہلّی'' کے محاذپر آخر وقت تک دُشمن کا بے جگری سے مقابلہ کرتے رہے ان کے ایک بریگیڈ نے مقابلہ میں انڈیا نے پورا ایک ڈویژن جھونک دیا مگر جنرل صاحب جوانوں کے حوصلے بڑھاتے ہوئے مسلسل سولہ دن جوانمردی سے لڑتے رہے ،مشرقی محاذ پر جنرل صاحب واحد کمانڈر تھے جنہوں نے ہتھیار پھینکنے کا حکم نہیںمانا بالآخر لڑتے لڑتے جب بارود ختم ہوگیا تو دشمن سے ہاتھا پائی کے دوران دونوں بازئووں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں تب ان کی گرفتاری عمل میں آسکی، ہندوستان کے مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل اروڑا نے اپنی کتاب میں ان کی بے مثال جرأت و بہادری کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اِن کو دادِتحسین دی ہے ۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں بھی جنرل صاحب کے کردار کو سراہا گیا ہے۔ حضرت اقدس بانی جامعہ مدنیہ جدید سے ١٩٧٩ء میں جنرل صاحب کا تعلق ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا جنرل صاحب کی حضرت سے عقیدت اس درجہ بڑھی کہ کہا کرتے تھے کہ ''پاکستان ''کی سب جماعتوں کے علماء سے ملا ہوں مگر صحیح معنی میں اہلِ حق سے ملنا اب نصیب ہوا ہے ،تمام اہم معاملات میں حضرت سے ضرور مشاورت کرتے تھے حضرت والد صاحب کے ذریعہ ہی سے حضرت مولانامفتی محمودصاحب سے جنرل صاحب کی ملاقات ہوئی تو ان سے بہت متاثر ہوئے۔ مارچ ١٩٨٠ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے فوجی کارروائی کی قیادت بھی آپ نے ہی کی مگر عین وقت پر یہ منصوبہ افشاء ہوجانے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔مری کی فوجی عدالت میں آپ پر مقدمہ چلا یاگیا حضرت اقدس والدصاحب اور حضرت اقدس مفتی محمود صاحب کوبطورِ خاص عدالت میں طلب کیا گیا حضرت والد صاحب چونکہ سفر نہیں کرتے تھے اس لیے اپنی بیماری اورعوارض کی بناء پر عدالت سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کی کہ عدالت اگر چاہے تو کمیشن مقرر کردے جو مجھ سے یہیں پر مطلوبہ سوالات کرے البتہ حضرت مولانامفتی محمود صاحب عدالت میں تشریف لے گئے اور جنرل صاحب کے استفسار پر واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے کے خلاف کارروائی کرنا بغاوت کے زمرے میں نہیںآتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ''اختیار کے باوجود جو شخص اللہ تعالیٰ کے اُتارے ہوئے قانون کو نافذ نہیں کرتا وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے'' اس مقدمہ میں جنرل صاحب کو١٤ برس کی قید ہوگئی تھی جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد جنرل اسلم بیگ کے دورمیں آپ کے تمام اعزازات بحال کرکے ستمبر ١٩٨٨ء میں رہا کردیا گیا۔