ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( جماعت کے احکام ) مسئلہ : جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں جماعت شرط ہے ۔یعنی یہ نمازیں تنہا صحیح نہیں ہوتیں۔ پنچ وقتی نمازوں میں جماعت ''واجب ''ہے بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو اور تراویح میں'' سنت موکدہ'' ہے اگرچہ ایک قرآن جماعت کے ساتھ ہو چکا ہو اور ہر محلہ والوں کے لیے ''سنت علی الکفایہ'' بھی ہے۔ اگر ایک محلہ کے سب لوگوں نے جماعت تراویح کو ترک کیا تو سب اس سنت کے تارک ہوں گے۔ اور اسی طرح نماز ِکسوف کے لیے اور رمضان کے وتر میں جماعت مستحب ہے اور سوائے رمضان کے اور کسی زمانہ میں وتر میں جماعت'' مکروہ تنزیہی ''ہے یعنی جب کہ مواظبت کی جائے اور اگر مواظبت نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دو تین آدمی جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں اور نماز ِخسوف میں اور تمام نوافل میں ''مکروہ تحریمی'' ہے بشرطیکہ اس اہتمام سے ادا کی جائے جس اہتمام سے فرائض کی جماعت ہوتی ہے یعنی ا ذان واقامت کے ساتھ یا کسی اور طریقہ سے لوگوں کو جمع کرکے ۔ہاں اگر بے اذان واقامت کے اور بے بلائے ہوئے دوتین آدمی جمع ہو کر کسی نفل کو جماعت سے پڑھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں اور پھر بھی دوا م نہ کریں اور مقتدی تین سے زیادہ نہ ہوں۔ جماعت ِثانیہ : ہر فرض کی دوسری جماعت ان چار شرطوں سے ''مکروہ تحریمی ''ہے : (١) مسجد محلے کی ہو اور عام رہ گزر پر نہ ہو اور مسجد محلہ کی تعریف یہ لکھی ہے کہ وہاں کاامام اور وہاں کے نمازی معین ہوں (٢) پہلی جماعت بلندآواز سے اذان واقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو۔ (٣) پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلہ میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔ (٤) دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت واہتمام سے پہلی جماعت ادا کی کی گئی ہے ۔اور یہ چوتھی شرط صرف امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہے اور امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہیت رہتی ہے۔