ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
طالب علم کے ذہن میں ایسے ہی منتقل کرتا ہے جیسے ماں باپ اس کو بچپن میں اپنے ہاتھ سے کھلایا پلایا کرتے تھے ۔اور جس طرح ماں باپ کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے اسی طرح یہ شفیق اُستاد بھی اپنی معلومات عطاء کرکے خوش ہوتا ہے۔ اور شاگردوں میں جومحنتی اور طلب ِعلم میں منہمک ہوتا ہے اُس سے وہ زیادہ خوش رہتاہے۔ نیز جس طرح وہ ماں باپ جو خود غنی ہوں ، اولاد کی کمائی سے بے نیازہوں بڑھاپے میں بھی انہیں اولاد کی مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اپنی اولاد سے مخلصانہ توقع وابستہ رکھتے ہیں کہ یہ لائق اُٹھے ۔اسی طرح شفیق ومخلص اُستاد بھی اپنے شاگرد کو لائق تر بناناچاہتا ہے حالانکہ اسے شاگردسے اپنے گھریلو اور ذاتی معاملات میں بڑھاپے کی بے کاری ،ضعف اور بیماری کے زمانہ میں عموماً کام آنے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ۔بلکہ کبھی کبھی تو استاد کسی ملک کا ہوتا ہے اور شاگرد کسی ملک کا اور بعد میں زندگی بھر آپس میں ملاقات بھی نہیں ہوتی۔ توگویا ماںباپ کی طرح اگر کوئی طبقہ احسان کرتا ہے تو وہ اساتذہ کا طبقہ ہے جو اپنے شاگردوں پر احسان کیا کرتا ہے۔ جب اساتذہ اتنے بڑے محسن ہوئے تو طالب علم کا فرض ہوتاہے کہ وہ احسان شناسی کرے ان کی اطاعت کرے اور انہیں خوش رکھ کر اُن کی دُعائیں لے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جوشخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ۔ طلبا کادوسرا فرض : آپ جانتے ہیں کہ علم ہی وہ دولت ہے جس سے تہذیبِ اخلاق کا بے بہا سرمایہ حاصل ہوتا ہے ۔یہ سرمایہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے تالا لگا کر رکھ دیا جائے بلکہ یہ دولت سرمایۂ تجارت کی طرح استعمال میں لانے سے بڑھتی ہے اس سے خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔علم کی گرانمایہ دولت حاصل ہو جائے تو اس کا فرض ہوتاہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرے کیونکہ علم عمل ہی کے لیے حاصل کیا جاتاہے۔ اگر آپ اپنے علم پر عمل کریںگے تو اس سے جاہل کوبھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ جاہل جو پڑھ نہیں سکتا آپ کے عمل سے سبق حاصل کرے گا اور اس کے اخلاق و معاملات بھی سُدھر جائیں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ نے خود ہی اپنے علم پر عمل نہ کیا وہی بے تہذیبی،وعدہ خلافی ،غیر ذمہ دارانہ گفتگو، بے شرمی ،بے حیائی ،گالی گلوچ اختیار کیے رکھی جو ایک غیر مہذب اور جاہل کا شیوہ ہو سکتی ہے کسی پڑھے لکھے کو زیب نہیں دیتی تو آپ میں اور جاہل میں کوئی فرق نہیںرہے گا بلکہ آپ ایسے ہوں گے جیسے اپنے علم کا چراغ بجھاکر جہل کی تاریکی میں اضافہ کر رہے ہوں۔