ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے تعارف بھی ۔ ٩۔ حلق رأس : قربانی کے بعد چونکہ حاجی تمام ارکانِ حج ادا کر چکا ہوتا ہے لہٰذا اب احرام کی پابندیاں اُٹھ جاتی ہیں وہ اپنے بال منڈواتے یا ترشواتے ہیں۔ ١٠۔ رمی جمار : میدان ِمنٰی میں پتھر کے تین ستون کھڑے ہیں ۔حاجی انہیں کنکریاں مارتے ہیں ۔ اس کی علماء اُمّت نے کئی توجیہات کی ہیں مگر دو اقرب الی الفہم اور قرین ِقیاس ہیں۔ (١) دنیا میں غیر پرستی کا سب سے بڑا مظاہرہ پتھر کے بتوں کی صورت میں ہوا ہے تو گویا ان ستونوں کو کنکریاں مار کر حاجی یہ بتاتاہے کہ میں غیر پرستی کے سب سے بڑے منظر سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔میرا تعلق تو میرے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ساتھ ہے۔ (٢) روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے لے چلے تو شیطان نمودار ہوا اور آپ کے پائے ثبات میں لغزش لانے کی کوشش کرنے لگا تو آپ نے اسے رجم کیا اور یہاں ایک پتھر کا ستون بن گیا ۔ شیطان نے تین مرتبہ آپ کے عزم بالجزم کو متزلزل کرنے کی کوشش کی اورآپ نے تینوں بار اسے رجم کیا۔ لہٰذا تین پتھر کی نشانیاں بن گئیں ۔حاجی حضرات اس موحدِ اعظم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ حج کے مصالح اللہ تعالیٰ شانہ نے شریعتِ مطہرہ کے ایک ایک حکم میں ایسی مصلحتیں رکھی ہیں کہ اگر دنیا بھر کے افلاطون جمع ہو کر غور وخوض کریں تو ان کی گردِ راہ کو نہیں پہنچ سکتے ۔مگر حج ایک ایسا رکن ہے جس کے مصالح اتنے ہی بے شمار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کی منادی کریں تو ساتھ ہی یہ فرمایا کہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ آئیں اور حج کے فوائد ملاحظہ کریں ۔قرآن حکیم میں آتا ہے : واذنّ فی الناس با لحج یا توک رجالاً وعلٰی کل ضامرٍ یأ تین من کل فج عمیق لیشہدوا منافع لھم۔ (الحج : ٤) اور لوگوں میں حج کی منادی کردو۔ آویں گے تیرے پاس پیدل چل کر اور ہر دبلے اُونٹ پر سوار