ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
٢۔ غیر فطری عدمِ مساوات کا خاتمہ : دنیا میں معاشرتی بگا ڑ کا سب سے بڑا سبب طبقاتی کشمکش اور رنگ ونسل کا امتیاز ہے۔ اسلام ان دونوں لعنتوں سے برأت کا اعلان کرتا ہے۔ انا خلقنٰکم من ذکر و اُنثٰی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا ان اَکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم۔ (الحجرات ١٣) بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں پہچاننے کے لیے ذاتوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ،بیشک تم میں سے اللہ کے ہاں معزز ترین وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ حج کے موقع پر ہوتا ہے ۔جب گورے رنگ کا ایرانی اور کالے رنگ کا حبشی،کھجور کھانے والا عربی اور گندم کھانے والا پاکستانی ،کشمیرکی جنت نظیر وادی کا رہنے والا کشمیری اور افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا باسی افریقی، لانبے قد کا مصری اور ٹھگنے قد کا بونا ،غریب اور امیر ،بادشاہ اور رعایا سب ایک ہی میدان میںکھڑے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوتے ہیں تو حاجی کے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ رنگ ونسل اور وطن وقوم کی جو دیواریں ہم نے کھڑی کر رکھی ہیں درحقیقت وہ تو ریت کے گھروندے سے بھی کمزورہیں اور یہ امارت وغربت کے امتیازات جو ہم نے قائم کر رکھے ہیں وہ تو آفتاب ِاقبال کے دائرے ہیں جو سمٹتے اور پھیلتے رہتے ہیں ۔دراصل تو ہم سب برابر ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں آج سے چودہ سو سال قبل نبی اُمّی (فداہ ابی واُمّی) ۖ نے فرمایا تھا : اے لوگو! سُن لو ! تمہارا سب کا رب ایک ہے، تم تمام ایک ہی اصل کی شاخ ہو ۔اس لیے عربی کو عجمی پر، سُرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوٰی کے سبب ۔(مسلم شریف) سیاسی مصالح ١۔ احساسِ مرکزیت : حج کا اجتماع جہاں اسلامی شوکت کا مظہر ہے وہاں مسلمانوں میں احساسِ وحدت مرکز اور وحدتِ اُمّت بھی پیدا کرتا ہے۔جب مسلمانوں میدانِ عرفات میں جاکر دیکھتا ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان ایک ہی مقام پر اکٹھے ہوگئے ہیں تو اُس کے ذہن میںیہ بات ضرور پیدا ہوتی ہے کہ یہ سب ایک ہی فکر اورایک ہی مقصد رکھتے ہیں ۔ان کا اللہ بھی ایک ہے اِن کا رسول (ۖ) بھی اورایمان بھی ایک ہے۔ مگر ایک ہی خدا کو ماننے والے اور ایک ہی رسول ۖ کے مبارک طریقہ پر چلنے والے آج ٹکڑوں میں بٹ گئے