ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
قارئین گرامی ! مولانامرحوم کے مندرجہ بالا خط سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ عیسائی دُنیا کی کم مائیگی کی یہ انتہا ہے کہ اُنہیں اپنے نبی کے یوم ولادت کا بھی صحیح طرح پتہ نہیںجس دن کو وہ یومِ ولادت سمجھتے ہیں اور تمام دُنیا میں اس کو منانے کے لیے بدتہذیبی کے مظاہرے کرتے ہیں ۔انجیل لوقا باب دوم کی ابتدائی آیات کے اعتبارسے وہ حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام کی پیدائش کا دن ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آپ کی جائے پیدائش (بیت اللحم) دسمبر کے مہینے میں برف باری کی زد میں ہوتی ہے ایسے شدید سردموسم میںچرواہوں کا اپنی بھیڑوں کی حفاظت کے لیے کھلے میدان میں قیام کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔اور کوئی ذی ہوش آدمی اپنی بھیڑوں کے ساتھ ایسے موسم میں کھلے میدان میں قیام نہیںکرسکتا کیونکہ اس سے جان ومال دونوں کا ضیاع لازم آئیگا۔ نیز دسمبر کے مہینے میں برفباری والے علاقہ میں کوئی ذی ہوش اپنی حاملہ بیوی کو کھلے میدان میں نہیں ٹھہراتابلکہ ایسے علاقے میں اتنے خطرناک موسم میں جانے کا خطرہ ہی مول نہیں لیتا چہ جائیکہ کھلی فضا میں آسمانی چھت کے نیچے قیام پذیر ہو۔ اسلام میں دن منانا ویسے ہی کوئی کارِ ثواب نہیں ۔پھر مسلمانی کے دعوے کے ساتھ کرسمس کا دن اُس دن کو سمجھنا جس کے سرپر بائبل کا ہاتھ ہے نہ انجیل اُس کی تصدیق کرتی ہے بلکہ انجیل دسمبر کے مہینہ میں پیدائشِ مسیح کے خلافِ عقل ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ ایسی خلافِ عقل اور خلافِ نقل باتوں کے پیچھے لگنا مسلمانوں کا کام نہیں ۔میں اپنے مسلمان بھائیوں سے ا پیل کرتا ہوں کہ اس قسم کی بے سروپا تقریبات میں حصہ لے کر اپنے ایمان و یقین کابیڑا غرق نہ کیا کریں ایسی باتوں سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہوتا ہے ۔وما توفیقی الا باللّٰہ۔