ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
ہوکر تمہارے پاس ہر دور کی مسافت سے آویں گے تاکہ وہ (حج میں پوشیدہ ) منافع دیکھ لیں ۔ آئیے ذرا ان منافع اور مصالح کا جائزہ لیں ۔ہم انہیں چار حصوں میں تقسیم کریں گے ۔(١) انفرادی (٢)اجتماعی (٣)سیاسی(٤)خالص دینی اور اُخروی انفرادی مصالح ا۔ احساسِ عبدیت : احساسِ عبدیت یعنی بندہ ہونے کا احساس ۔یہ وہ احساس ہے جو ایک تو انسانی زندگی کے مقصد کا تعین کرتا ہے دوسرے انسان کو زندگی اس مقصد کے تحت گزارنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ احساسِ عبدیت پیدا کرنے کا بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا ذریعہ اور طریقہ ہو سکتا ہے کہ آدمی اپنے وطن ،گھر، اعزہ و اقارب اور اپنی محبوب اشیاء سبھی کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ور جہاں اُسے جانے کا حکم دیا گیا ہے وہاں بھی اُسے اپنی مرغوبات کو چھوڑنا ہوگا ۔تعیشات کو خیر باد کہہ کر ہر قسم کی مشکلات کوبرداشت کرنا ہوگا، مگر ان سب کے باوجود وہ جس کا اپنے آپ کو بندہ تصور کرتاہے اس کا حکم ماننے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہے ۔ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے ٢۔ اظہارِمحبوبیت : حج اظہار ِمحبوبیت کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ فریضہ حج میں عبدیت سے زیادہ محبوبیت ہے ۔عبدیت سے مجبوری اور بیچارگی ٹپکتی ہے جبکہ محبوبیت سے پیار اور تعلق کا مفہوم مترشح ہوتا ہے ۔ جب حاجی گھر سے روانہ ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتاہے کہ کسی پیارے سے ملنے جارہا ہے۔ جب احرام باندھتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی محبت میں تمام تعیشات کو بھول گیا ہے ،جب اس کی نگاہ بیت اللہ شریف پر پڑتی ہے تو مستانہ وار لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک۔ حاضر ہوں اے اللہ میں حاضرہوں ،حاضر ہوں تیر اکوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں ۔بیشک ہرقسم کی تعریف کا تو ہی سزاوار ہے۔ نعمت تیری ہے ،بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔ کا نغمۂ حجازی الاپنے لگ جاتا ہے ۔پھر وہ ہر لمحہ اورہرآن چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے یہ کلمات