Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003

اكستان

20 - 66
فرمایا انک لتصل الرحم  اللہ آپ کو رُسوا نہیں کرے گا آپ تو صلح رحمی کرتے ہیں جو آپ کے قرابت دار رشتہ دار ہیں آپ سے وہ بُرائی کرتے ہیں مگر آپ جواب میں اُن کے ساتھ اچھائی کرتے ہیں ۔ ان کی خبر گیری کرتے ہیں غریبوں کی مدد کرتے ہیں اچھی طرح بات کرتے ہیں پیار محبت سے پیش آتے ہیں ۔وتَحمِل الکلّ جو لاچار ہو کمانہیں سکتا کھا نہیں سکتا پی نہیں سکتا کسی بھی وجہ سے جسمانی لاغر ہے یا حالات نے اُسے ایسا کردیا ہے کوئی قدرت کی طرف سے گردش میں آیا ہوا ہے آپ اُس کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں کہ میں کھلائوں گا تجھے میرے ساتھ صبح شام کھانا کھایا کر میں تجھے کپڑا دیا کروں گا، لے میں تجھے یہ پیسے دیتا ہوں تو جا کاروبار کرلے تو لاچاروں کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں،ہمارا کیا ہے لاچاروں کو سرسے اُتارتے ہیں کہ بابا اس مصیبت سے جان چھڑائو ۔نہیں ،آپ بوجھ اُٹھا لیتے ہیں ۔اور فرمایا  وتکسب المعدوم جس کے پاس کچھ نہیں اُس کے لیے کما تے ہیں آپ کماکر اُس کو دیتے ہیں کہ لو میں تمہارے لیے محنت کروں گا ۔اب بھلا کوئی کسی کے لیے محنت کرتاہے مگرفرمایا میں کروں گا میں تمہارے لیے محنت کروں گا اور تمہیں میں کھلائوں گا تمہاری ضرورت پوری کروں گا۔دیکھ لیں ساری چیزیں وہ ہیں جن کا لوگوں سے اور اللہ کی مخلوق سے تعلق ہے وہ گنوارہی ہیں اور پھر فرماتی ہیں  وتقری الضیف  آپ مہمان نوازی کرتے ہیں یہ بھی آپ میں خوبی ہے عام طور پر انسان کی کمزوری ہے کہ کوئی مالدار یا اچھا مہمان آ جائے تو اُسکی تواضع تو ذراگرم جوشی سے کرلیتاہے اور غریب جو آئے تو اُس کو کہتاہے کہ چلو مونگ پھلی ہی دے دو چلو گزارا ہو جائے گا مگر مالدار آئے توکہتے ہیں دُنبہ ذبح کرو لیکن نبی علیہ الصلوة والسلام کی جو زندگی تھی وہ اس طرح گزررہی تھی کہ آپ کے آس پاس اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے مسائل کے لیے غریب اور گرے پڑے لوگ ہوتے تھے تو اس صورت میں مہمان بھی آتے ہیں مہمان کا ایسا ہو تاہے کہ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا مہمان صبح کو بھی آجاتاہے دن میںبھی آجاتاہے کھانے کے وقت پر بھی آجاتاہے بے وقت بھی آجاتاہے اور آدھی رات کو بھی آجاتاہے اور اُس زمانے میں اگر آدھی رات کومہمان آپ کے دروواز ے پر آگیا تو آپ کو سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں رکھیں کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا تھا۔آج کل تویہ ہے کہ نہیں رکھا تو وہ کہیں ہوٹل میں رہ لے گا کسی سرائے میں اور جگہ چلا جائے گا بہت ذریعے ہیں اور اس دورمیں مہمان داری کا ایسا رواج تھا کہ نہ کروتوپھر رسوائی ہوتی تھی ۔اور فرمایاآپ سچ بات کرتے ہیں جھوٹی بات نہیں کبھی سُنی،جانتے ہی نہیں تھے آپ جھوٹ، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نبی علیہ الصلوة والسلام کی جو خدمات تھیں معاشرہ کے لیے وہ گنوا رہی ہیں ۔
آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں  :
	آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں ۔یہ چیزیں جو حدیث میں آرہی ہیں یہ آپ کے اولیں مشن میں

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
85 اس شمارے میں 3 1
86 حرف آغاز 4 1
87 درس حدیث 6 1
88 حضر ت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبی علیہ السلام 6 87
89 مزید خصوصیت : 6 87
90 حضرت عمر کا کوفہ کے لیے ان کو منتخب فرمانا : 7 87
91 طلباء کے فرائض 8 1
92 طلبا کا پہلا فرض : 8 91
93 طلبا کادوسرا فرض : 9 91
94 بقیہ : درس حدیث 10 87
95 الوداعی خطاب 11 1
96 جنت کیاہے ؟ : 12 95
97 جہنم کیا ہے : 12 95
98 علماء اور طلباء پر کیا لازم ہے : 12 95
99 تفصیلاً علم سیکھنا فرضِ کفایہ ہے : 13 95
100 مثال سے ضاحت : 13 95
101 دُنیاوی کاموں سے اسلام نہیںروکتا : 13 95
102 عالم دین کی خدمت کو نہیں چھوڑ سکتا : 14 95
103 فتنہ کا دور، دجال کی آمد : 14 95
104 پورے عالم کے اعتبار سے صدیاں دنوں کی طرح ہوتی ہیں : 14 95
105 دجال کی آمد سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے : 14 95
106 دجالی قوتیں نبی علیہ السلام کی سیاسی اور اقتدارسے متعلق پیشین گوئیوں سے خوب آگاہ ہیں : 15 95
107 خراسان ہمارا پڑوس اور اس کی اہمیت : 15 95
108 ''این جی او ''دجالی فتنہ ، غریب مسلمان ان کا پہلا نشانہ : 15 95
109 فقرکبھی کفر کا سبب بن جاتاہے : 16 95
110 اب پچھلے لوگوں جیسا ایمان مضبوط نہیں ہے : 16 95
111 کفر کا طریقۂ واردات : 17 95
112 ان کے ایمان بچانے کی ترکیب : 17 95
113 دجالی فتنہ کا ایک واقعہ : 18 95
114 سندھ اور پنجاب : 18 95
115 غریبوں کی مدد - نبیوں کی ترجیحات : 19 95
116 نبی علیہ السلام کی معاشرتی فلاحی سرگرمیاں : 19 95
117 آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں : 20 95
118 عبرتناک واقعہ : 21 95
119 ایک اور واقعہ : 22 95
120 آغا خانی اور شمالی علاقہ جات : 22 95
121 ایک اور ناپاک مقصد : 23 95
122 علماء اور طلباء کے اہم اہداف : 23 95
123 ذکر فکر کی طرف توجہ اور ا س کا فائدہ : 24 95
124 مثال سے و ضاحت : 24 95
125 ایک طالب علم کا اشکال اور اُس کا جواب : 24 95
126 بڑے حضرت کی ہر طالب علم اور مرید کو نصیحت : 28 95
127 حج 29 1
128 مفہوم اور فرضیت : 29 127
129 ١۔ احرام : 30 127
130 ٢۔ تلبیہ : 30 127
131 ٣۔ طواف : 31 127
132 ٤۔ حجرِاسود کا بوسہ : 31 127
133 ٥۔ سعی بین ا لصفّاوالمروہ : 31 127
134 ٦۔ وقوفِ عرفہ : 32 127
135 ٧۔ قیامِ مزدلفہ : 32 127
136 ٨۔ منٰی کا قیام اور قربانی : 32 127
137 ٩۔ حلق رأس : 33 127
138 ١٠۔ رمی جمار : 33 127
139 حج کے مصالح 33 127
140 انفرادی مصالح 34 127
141 ا۔ احساسِ عبدیت : 34 127
142 ٢۔ اظہارِمحبوبیت : 34 127
143 ٣۔ جہاد ِزندگی کی تربیت : 35 127
144 ٤۔ ماضی سے وابستگی : 36 127
145 اجتماعی مصالح 37 127
146 ١۔ اخوت کے جذبات کا پیدا ہونا : 37 127
147 ٢۔ غیر فطری عدمِ مساوات کا خاتمہ : 38 127
148 سیاسی مصالح 38 127
149 ١۔ احساسِ مرکزیت : 38 127
150 خالص دینی اور اُخروی مصالح 39 127
151 ١۔ یادِ آخرت : 39 127
152 ٢۔ گناہوں کی معافی : 39 127
153 ٣۔ حج کابدلہ جنت ہے : 40 127
154 ٤۔ حج کی جامعیت : 40 127
155 انتقال پر ملال 41 1
156 جیل سے حضرت اقدس کے نام ایک خط 42 155
157 ١٩٨٢ء میں ساہیوال جیل میں راقم نے ملاقات کی ۔اس موقع پر ایک خط 46 155
158 میجر جنرل (ریٹائرڈ) تجمل حسین 47 155
159 میجر جنرل ریٹائرڈتجمل حسین 48 155
160 سیّد العلماء والطلبائ 50 1
161 اہم اعلان 53 1
162 ولادتِ مسیح علیہ السلام اور ٢٥دسمبرتحقیقی جائزہ 55 1
163 دینی مسائل( جماعت کے احکام ) 60 1
164 جماعت ِثانیہ : 60 163
165 امامت کے فرائض : 61 163
166 عالمی خبریں 64 1
167 مسلم حکمران اور مقامِ عبرت 64 166
168 تنگ نظری کی انتہائ 64 166
Flag Counter