ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
فرمایا انک لتصل الرحم اللہ آپ کو رُسوا نہیں کرے گا آپ تو صلح رحمی کرتے ہیں جو آپ کے قرابت دار رشتہ دار ہیں آپ سے وہ بُرائی کرتے ہیں مگر آپ جواب میں اُن کے ساتھ اچھائی کرتے ہیں ۔ ان کی خبر گیری کرتے ہیں غریبوں کی مدد کرتے ہیں اچھی طرح بات کرتے ہیں پیار محبت سے پیش آتے ہیں ۔وتَحمِل الکلّ جو لاچار ہو کمانہیں سکتا کھا نہیں سکتا پی نہیں سکتا کسی بھی وجہ سے جسمانی لاغر ہے یا حالات نے اُسے ایسا کردیا ہے کوئی قدرت کی طرف سے گردش میں آیا ہوا ہے آپ اُس کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں کہ میں کھلائوں گا تجھے میرے ساتھ صبح شام کھانا کھایا کر میں تجھے کپڑا دیا کروں گا، لے میں تجھے یہ پیسے دیتا ہوں تو جا کاروبار کرلے تو لاچاروں کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں،ہمارا کیا ہے لاچاروں کو سرسے اُتارتے ہیں کہ بابا اس مصیبت سے جان چھڑائو ۔نہیں ،آپ بوجھ اُٹھا لیتے ہیں ۔اور فرمایا وتکسب المعدوم جس کے پاس کچھ نہیں اُس کے لیے کما تے ہیں آپ کماکر اُس کو دیتے ہیں کہ لو میں تمہارے لیے محنت کروں گا ۔اب بھلا کوئی کسی کے لیے محنت کرتاہے مگرفرمایا میں کروں گا میں تمہارے لیے محنت کروں گا اور تمہیں میں کھلائوں گا تمہاری ضرورت پوری کروں گا۔دیکھ لیں ساری چیزیں وہ ہیں جن کا لوگوں سے اور اللہ کی مخلوق سے تعلق ہے وہ گنوارہی ہیں اور پھر فرماتی ہیں وتقری الضیف آپ مہمان نوازی کرتے ہیں یہ بھی آپ میں خوبی ہے عام طور پر انسان کی کمزوری ہے کہ کوئی مالدار یا اچھا مہمان آ جائے تو اُسکی تواضع تو ذراگرم جوشی سے کرلیتاہے اور غریب جو آئے تو اُس کو کہتاہے کہ چلو مونگ پھلی ہی دے دو چلو گزارا ہو جائے گا مگر مالدار آئے توکہتے ہیں دُنبہ ذبح کرو لیکن نبی علیہ الصلوة والسلام کی جو زندگی تھی وہ اس طرح گزررہی تھی کہ آپ کے آس پاس اپنی ضرورتوں کے لیے اپنے مسائل کے لیے غریب اور گرے پڑے لوگ ہوتے تھے تو اس صورت میں مہمان بھی آتے ہیں مہمان کا ایسا ہو تاہے کہ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا مہمان صبح کو بھی آجاتاہے دن میںبھی آجاتاہے کھانے کے وقت پر بھی آجاتاہے بے وقت بھی آجاتاہے اور آدھی رات کو بھی آجاتاہے اور اُس زمانے میں اگر آدھی رات کومہمان آپ کے دروواز ے پر آگیا تو آپ کو سوائے اس کے کہ اپنے گھر میں رکھیں کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا تھا۔آج کل تویہ ہے کہ نہیں رکھا تو وہ کہیں ہوٹل میں رہ لے گا کسی سرائے میں اور جگہ چلا جائے گا بہت ذریعے ہیں اور اس دورمیں مہمان داری کا ایسا رواج تھا کہ نہ کروتوپھر رسوائی ہوتی تھی ۔اور فرمایاآپ سچ بات کرتے ہیں جھوٹی بات نہیں کبھی سُنی،جانتے ہی نہیں تھے آپ جھوٹ، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نبی علیہ الصلوة والسلام کی جو خدمات تھیں معاشرہ کے لیے وہ گنوا رہی ہیں ۔ آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں : آپ حضرات نبی علیہ السلام کے وارث ہیں ۔یہ چیزیں جو حدیث میں آرہی ہیں یہ آپ کے اولیں مشن میں