ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
|
من حج البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کما ولدتہ اُمّہ ۔ان الحج یغسل الذنوب کما یغسل الماء الدّنس۔ جس شخص نے اس گھر (خانہ کعبہ)کا حج کیااور دورانِ حج نہ تو کوئی شہوانی حرکت کی اور نہ کوئی گناہ کیا تو جب وہ حج کرنے کے بعدلوٹتا ہے تو یوں (پاک صاف )ہوتا ہے گویا آج ہی اُس کی ماں نے اُسے جنا ہے، حج گناہوں کو ایسے صاف کردیتا ہے جیسے پانی میل کو دھودیتا ہے۔ ٣۔ حج کابدلہ جنت ہے : آنحضرت ۖ نے فرمایا۔ الحج المبرورلیس لہ جزائ الا الجنة۔ (مسلم )حج ِمقبول کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ ٤۔ حج کی جامعیت : حج کی جامعیت اس کا مستقل دینی فلسفہ ہے۔ حج میں تمام دینی ارکان کی رُوح موجود ہے۔ (١) حج نماز بھی ہے ،کیونکہ نماز کا اولین مقصد ذکر الہٰی کی یاد دہانی ہے۔ حاجی دوران حج تلبیہ ،اد عیائِ ارکانِ مختلفہ اور تسبیحات وغیرہ کے ذریعے ہر وقت اللہ کے ذکر میں رطب اللسان رہتاہے۔ (٢) حج زکٰوة بھی ہے کہ زکٰوة کی حقیقت یہی ہے کہ انسان کو خدا کی رضا اوربندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا جائے ۔حاجی اپنی تمام بچی ہوئی پونجی خدا کی رضا کے لیے خرچ کرتاہے اور حج کا رکن قربانی کرکے جذبہ خیرات کا اظہار کرتا ہے۔ (٣) حج روزہ بھی ہے۔ روزہ کی رُوح یہی ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا سیکھ لے ۔ایامِ حج میں بھی اس چیز کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔حاجی جنسی اختلاط سے بچ کر رہتا ہے ۔ اگرچہ کھانا پینا ممنوع نہیں، مگر زیب و زینت اور آرائش کی دیگر اشیاء ممنوع ہیں۔ (٤) حج جہاد بھی ہے کہ جس طرح مجاہد اپنے گھرسے نکلتا ہے تو تمام گھر والوں کو رب کی رضا کی خاطر چھوڑ جاتا ہے۔میدان جہاد میں ایک خاص قسم کا لباس پہنتا ہے۔ہر وقت اُس کے دل میں خدا کی یاد رہتی ہے۔ میدان ِکارزار میں دوڑتا ہے۔ انہی تمام اُمور کی مانند حاجی کو انجام دینا پڑتے ہیں یعنی گھر کا چھوڑنا ،احرام کا باندھنا، تلبیہ اور سعی بین الصفا والمروة۔ یہ تھے بندہ کی ناقص فہم کے مطابق حج کے چند حکم ومصالح، خداتعالیٰ شانہ ہمیں حج کی برکات نصیب فرمائے۔(آمین یارب العٰلمین)