ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2003 |
اكستان |
اس حدیث شریف کی تشریح میں حضرت عمر فرماتے ہیں ،جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیںکرتے میرا جی چاہتاہے کہ ان پر جزیہ لگادوں،وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ١۔ احرام : اصطلاح میں ''احرام'' حج کی باضابطہ نیت کرنے کو کہتے ہیں ۔ حاجی حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے ایک مقررہ مقام پر احرام باندھتا ہے ۔ یمن ، پاکستان ، ہندوستان اور مشرق کے دیگر ممالک سے بحری جہاز کے ذریعے جانے والے حجاج کرام کے لیے مقامِ احرام یا میقات ''یلملم ''ہے ۔مدینہ کی طرف سے آنے والے حجاج کے لیے''ذوالحلیفہ'' ، عراق والوں کے لیے ''ذاتِ عرق''،شام اور مصر سے آنے والے''زائرین جحفہ '' اورنجد کی طرف سے آنے والے عازمین حج کے لیے'' قرن'' مقام میقات ہے ۔ احرام میں حاجی اپنا قومی یا روایتی لباس اُتارکر دو (بِن سِلی) چادریں پہن لیتا ہے جن میںایک تہبند اور ایک اوڑھنی ہوتی ہے ۔پھر وہ جب تک مکہ شریف کی حدود میں رہتا ہے اُسے احرام کی حالت میں رہنا پڑتا ہے ۔حالتِ احرام میں حاجی پر چند ایک پابندیاں لگ جاتی ہیں ۔ شکار نہ کر سکتا ہے نہ کر ا سکتا ہے ۔زیبائش وآرائش ممنوع ہے۔ نہ بال کٹوا سکتا ہے نہ ناخن ترشوا سکتا ہے ۔نہ ٹوپی پہن سکتا ہے۔ نہ عمامہ سے سر چھپا سکتا ہے۔ گویا اپنی فطری حالت میں اپنے آقا کے دربار میں حاضر ہوتا ہے ۔آقا نے یہ لازم قراردیاہے کہ جب میرے لیے آئو تو سادگی کا نمونہ بن کر آنا ۔یہاں تو ہر چیز کی قیمت خلوص ہے ،بناوٹ نہیں۔ ٢۔ تلبیہ : یہ کلمات ہیں جو عاشق کیف ومستی کے عالم میں بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑتے ہی کہنے لگ جاتا ہے : لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک ۔ حاضر ہوں اے اللہ میں حاضرہوں میں حاضرہوں ۔تیرا کوئی شریک نہیں ۔میں حاضرہوں ۔بیشک ہر قسم کی تعریف کا سزا وار تو ہی ہے۔ نعمت تیری ہے بادشاہی تیری ہے کوئی تیر اشریک نہیں۔ یہی پکار اس کا وردِ زبان بن جاتی ہے، پھر اُٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے ،چلتے پھرتے یہی کلمات دہراتا رہتا ہے گویا اب یہ سب کچھ بھول کر صرف محبوب کے عشق میں دیوانہ ہو چکاہے۔