لاٹھی گولی کی سرکار
پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف کمپنی کے ملازمین نے احتجاج کیا۔حکومت نے احتجاج پر قابوپانے کے لیے طاقت آزمائی۔لاٹھی چارج ہوا،گیس کے گولے داغے گئے،واٹرکینن چلائی گئی ۔کتنے ہی ملازمین زخمی ہوئے ۔دو بیچارے توجان سے گئے۔پولیس اوررینجرز کاکہناہے کہ انہوںنے کوئی گولی نہیں چلائی ۔توپھرکیاکہاجائے کہ یہ دوبندے کیسے مارے گئے۔سیاسی رہنما ان ہلاکتوں کی ذمہ داری حکومت پر ہی ڈال رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ حکومت کومستعفی ہوجاناچاہیے۔وزیراعظم فرمارہے ہیں کہ پی آئی اے بحران کے پیچھے سیاسی عنصر کارفرماہے۔ہڑتالی ملازمین فارغ ہوںگے ،ان پرمقدمات چلیں گے اوروہ جیل بھی جائیں گے۔
پاکستان کے کسی ادارے میں اس قسم کی صورتحال کاپیداہوجانا،کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہاں ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں ،احتجاجی ریلیاں اورجلوس نکلنا بھی عام بات ہے۔ کسی مطالبے کولے کر سڑکیں بلا ک کرنا، پہیہ جام اورشٹرڈاؤن بھی یہاں کے معمولات کاحصہ ہیں۔ جب لوگ کوئی مطالبہ لے کر کھڑے ہوتے ہیں توایسے میں سب تماشادیکھتے ہیں ۔ہر کوئی چاہتاہے کہ معاملہ نقطۂ عروج پر پہنچے ۔ فریقین کی طاقت آزمائی ہو،اورہمیں تبصرے کرنے کاموقع ہاتھ آئے۔کسی کوبیچ بچاؤ کی توفیق نہیں ہوتی ،کوئی ہڑتالیوں کے پاس نہیں جاتاکہ ان پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ کوئی حکومت کو نیک مشورہ نہیں دیتاکہ ایسے میں صبر وتحمل اورقانون کی مکمل پاس داری کاراستہ اختیارکرناچاہیے۔ کچھ لوگ متحرک ہوتے بھی ہیں تو جلتی پر مزید تیل ڈالنے کے لیے۔ حکومتی حاشیہ بردار ،چاپلوسی اورخوشامد کاراستہ اختیارکرتے ہیں ،،مستند ہے آپ کاسب فرمایاہوا،کاوردہوتاہے۔کہاجاتاہے کہ کچل ڈالیں اورنشانہ ٔ عبرت بنادیں۔ ہڑتالیوں کو کہاجاتاہے کہ ڈٹے رہو،ہم تمہارے ساتھ ہیں۔میڈیا بھی عموماً ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا،بات بڑھتی جاتی ہے،جس کے بعد لاٹھی گولی کی سرکارہی حرکت میں آتی ہے۔ہجوم کومنتشر کرنے کے لیے طاقت کااستعمال آخری حد تک بلکہ ماورائے قانون حدتک ہوتاہے۔نتیجے میں لوگ زخمی اورجاں بحق ہوتے ہیں۔ان میں ہڑتالی بھی ہوتے ہیں اوربعض اوقات بالکل لاتعلق اورمعصوم شہری بھی زد میں آجاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہمیشہ کی طرح کسی بھی جانی ومالی نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکردیتے ہیں۔ہجوم کے منتشرہونے پر معاملہ ٹھنڈاپڑجاتاہے۔جس خرابی کی وجہ سے ہڑتال ہوئی تھی ،وہ اکثر جوں کی توں رہتی ہے۔ہڑتالیوں کاجانی ومالی نقصان توہوتاہی ہے۔اس دوران ملک وقوم کوجو اربوں روپے کامعاشی نقصان ہوتاہے ، وہ الگ۔لاٹھی گولی کی زد میں آنے والے ،کچھ دنوں بعد کیس فائل کرنے کی تگ ودومیں لگ جاتے ہیں مگرکسی کوانصاف نہیں ملتا۔انہیں ہلہ شیری دینے والے بھی آنکھیں پھیرلیتے ہیں کہ ان کے سامنے اس قسم کے مزید بڑے بڑے کام ہوتے ہیں۔
پی آئی اے ملازمین کی حالیہ ہڑتال اورسانحے پر یہ سوال خود بخود پیداہوتاہے کہ آخر ہم بحیثیت ِ قوم کب بچپناچھوڑکر حدِ بلوغت میں قدم رکھیں گے۔ یہ انداز توبچوں کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی جائے تومنہ پھلاکر کونے میں بیٹھ جانے، رونے ،چیخنے چلانے اورچیزوں کوتوڑنے پھوڑنے کے سوا،ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔بچوں کومعصوم سمجھ کران کی حرکات کونظرانداز کردیاجاتاہے اورکبھی ان کی بات مان لی جاتی ہے۔لیکن اگراپنی بات پیش کرنے اورمنوانے کے لیے یہی انداز کوئی عاقل بالغ شخص اختیارکرے تووہ کیسالگے گا۔اوراگرکسی کی عادت ہی ایسی ہوتویہی کہاجائے گا کہ وہ سال پورے کرنے کے لحاظ سے چاہے ادھیڑعمر ہوچکاہے ،مگر اس کی ذہنی سطح بچوں کی سی ہے۔
ہم اہلِ پاکستان اپنی عمر کی پون صدی پوری کرنے کے قریب ہیں ۔مگر ابھی تک عوام سے لے کرحکام تک ہمیں بالغ شعور نصیب نہیں ہوا۔ اگر ہوتا توہماری یہ حالت نہ ہوتی ۔ہم میں سے جن کے پاس اختیاراوراقتدارہے ،وہ اپنی کوئی غلطی تسلیم کرنے پر تیارنہیں ہوتے۔ دوسری طرف ہم شہر ی بھی کم نہیں کہ ہم مقتدر طبقے کی کوئی صحیح بات ماننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ہم حاکم ہیں یارعایا، کسی بھی صورت میں ملک وملت کی اجتماعی فلاح وبہبود ہماری ترجیحات میں دوردورتک شامل نہیں ۔حاکم ہونے کے ناطے ہمیں سب سے پہلے اپنے گھراورخاندان کا،اوردوسرے نمبر پر اپنی پارٹی اورپارٹی کے بڑے بڑے عہد ے داروں کامفاد عزیز ہوتاہے۔ پارٹی ورکروں کانمبر تیسرااورعوام کا نمبرسب سے آخر میں ہے۔ اسی طرح عوام کی حیثیت سے ہماراہدف ،اپنی روٹی روزی ہے ،اپنی جان اور اپنا مکان ہے۔دوسرے نمبر پر ہماری کچھ وفاداریاں اپنی پارٹی اورپارٹی لیڈر سے وابست ہوتی ہیں۔ ملک وملت کی فلاح وترقی جیساکوئی اجتماعی مقصد ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں گزرتا۔دین اسلام کی خدمت کاتوسوال ہی کیا۔کہ ہمارے نزدیک وہ صرف نماز اورمسجدتک محدودہے۔
حالانکہ ساری بات اسلام پر عمل پیراہونے یانہ ہونے کی ہے۔اگر ہم اسلام کومضبوطی سے تھام لیں تو بحیثیتِ حکام بھی ہم سدھرجائیں اوربحیثیتِ عوام بھی ۔اگرہماراجینامرنااسلام کے لیے ہوجائے تو ہم اغراض پرستی کی لعنت سے نجات پاجائیں گے۔اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے انسانی حقوق کا خیال رکھیں توحکام کوایک جان کے ضیاع کی جواب داری بھی ،اپنے سرپرمحسو س ہوگی، اورعوام احتجاج کرتے وقت یہ ضرورسوچیں گے کہ کہیں ہماری وجہ سے کوئی بیماراپنی دواسے اورکوئی غریب اپنی روزی روٹی سے محروم تونہیں ہوجائے گا۔
حکومت کا پی آئی اے سے عدم اعتماد بجاہے کہ یہ کمپنی تین سوبیس ارب کی مقروض ہے ،روزانہ دس کروڑ کاخسارہ اٹھارہی ہے اورہر ماہ ساڑھے تین ارب کاقرضہ اداکررہی ہے،جبکہ اس کے کرائے زیادہ ہیں اورسہولیات کم۔ جہازوں کی حالت ایسی کہ بارہ یورپی ممالک میں انہیں گزرنے کی اجازت نہیں۔مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ ایرلائن کی نجکاری کے سوابحالی کی کوئی صورت نہ ہو۔ اگر ریلوے ،انتہائی خسارے سے نکل کر دوتین سالوں میں قابلِ اطمینان حدتک ترقی کر سکتی ہے تو پی آئی اے میں بھی یہ ممکن ہے ۔ ضرورت ایمان داراورمخلص عملے کوآگے لانے کی ہے۔ اوریہ کام نج کاری کے بغیر بھی ہوسکتاہے۔
٭٭٭
09-02-2016