کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے
ہزارہ کی خوبصورت وادی میں دریائے کنہارکے کنارے، سمیع اللہ کاگاؤں تھا۔ ہر نوجوا ن کی طرح سمیع اللہ نے بھی بہت سے سہانے سپنے آنکھوں میں سجارکھے تھے۔ مگر جلدہی بیمار والدکاسہاراچھوٹ گیا ۔بوڑھی ماں اورتین بہنوںکی ساری ذمہ داری سمیع اللہ کے کاندھوںپر آگئی۔وہ میٹرک کاامتحان دینے والاتھامگراسے اس کاموقع نہ مل سکا۔کام کی تلاش اسے راول پنڈی سے لاہوراورلاہور سے کراچی لے آئی۔یہاں شروع کے کچھ دنوں میں اسے فٹ پاتھوں پر بھوکابھی سوناپڑا۔بہت دنوں تک وہ کچرا چننے والوں کے ساتھ شامل رہا۔ اسے روزانہ میلوں پیدل چلناپڑتا۔ بدلے میںصرف اتنی مزدوری ملتی کہ وہ رات کو بھوکاسونے سے بچ جاتا۔آخر وہ اس کام سے اکتاگیا۔اس کی اگلی منزل برنس روڈ تھی۔ وہاں چاٹ اوردہی بھلے والے اس سے مفت میں کام کراتے ،اسے ریس کے گھوڑے کی طرح دوڑاتے ۔بدلے میں اسے مزدوری کی جگہ چاٹ اوردہی بھلے ہی دیے جاتے۔ ہر شخص کمزور کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناچاہتاہے۔ سمیع اللہ کے ساتھ بھی ایساہی ہوتارہا۔اسے ایک سہارے کی ضرورت تھی جوایک مدت تک اسے کہیں دکھائی نہ دیا۔ آخر ایک ڈاکٹرصاحب کواس پر رحم آگیا۔یہ ان کے کام بھی دوڑ دوڑکرکرتاتھا اوربدلے میں اسے دووقت چائے مل جاتی تھی۔ ڈاکٹرصاحب نے ایک دن اس کے حالات پوچھے اورپھر اسے سوروپے یومیہ پر اپنے ہاں رکھ لیا۔
سمیع اللہ دل لگاکرکام کرتارہا۔ ایک سال بعد ڈاکٹر نے اس کی ماہانہ تنخواہ مقررکردی۔وہ کفایت شعار توتھاہی ،تین چارسال بعد اس کے پاس اتنی رقم ہوگئی کہ اس نے قسطوں پرایک رکشالے لیا۔ اب وہ اپنے پیروں پر کھڑاہورہاتھا۔ ایک سال میں اس نے رکشے کی قسطیں اداکردیں۔اس کے حالات دن بدن بہتر ہوتے گئے۔ کئی سال بعد وہ اپنے آبائی علاقے لوٹ آیا تاکہ اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرے۔ وہ گھر آیاتواس کی ماں بڑی خوش ہوئی اور جلدہی اس کی شادی کرادی ۔ مشکل دور گزر گیا تھااورخوشیاں مسکرارہی تھیں۔ شادی کے دوسرے سال اس آنگن میں ایک پھول کھلا ۔کچاصحن سلمیٰ کی کلکاریوں سے گونجنے لگا۔ مزید دوسال پلک جھپکتے میں بیت گئے۔سمیع اللہ نے ایک ہائی روف خریدلی تھی جو بکنگ پرچلتی تھی ۔گزارااچھی طرح ہورہاتھا۔اس نے اپنی دوبہنوں کی شادی بھی کرادی۔ تیسری کی شادی کی تیاری ہورہی تھی کہ اچانک زلزلے نے ان کی تمام مسرتوں کو آنسوؤں میں بدل دیا۔ان کے گھر کابیشتر حصہ منہدم ہوگیا۔بہن چھت کے نیچے دب کرمرگئی۔سمیع اللہ خودشدید زخمی ہوکر ہسپتال میں داخل ہوا۔ اس کی بوڑھی ماں ،بیوی اوربچی کوپناہ گزین کیمپ میں جگہ تومل گئی مگر وہاں ضروریات کاسامان پوری طرح میسر نہ تھا۔ اکتوبر تو کسی نہ کسی طرح گزرگیا۔ مگرنومبر شروع ہوتے ہی سخت سردی نے متاثر ین کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا۔گرم خیمے ،لحاف ،ادویات اور غذائیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ مصیبت زدگان میں سے بہت بڑی تعداد بیمار ہوگئی۔انہی میں دوسالہ سلمیٰ بھی تھی جسے سردی سے ڈبل نمونیا ہوگیاتھا۔بچی کو مناسب ادویات اور غذائیں میسر نہ آئیں تو وہ آخری ہچکیاں لینے لگی۔ادھر سمیع اللہ چلنے پھرنے کے قابل ہوااورہسپتال سے کیمپ پہنچا تواس کی بیٹی زندگی اورموت کی کش مکش میں مبتلاتھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بچی نے باپ کی گود میں دم توڑدیا۔
٭
اس وقت پناہ گزین کیمپوں میں ایسی کئی الم ناک کہانیاں روز جنم لے رہی ہیں مگرا ن میں سے کوئی ایک آدھ ہی اخبارات تک پہنچ پاتی ہے۔ معمار ٹرسٹ کے ایک کارکن نے بتایاکہ زلزلہ زدگان کی حالت نہایت قابلِ رحم ہے۔دسمبر کی سخت سردی میں جہاں ہم اپنے آرام دہ مکانات میں لحاف اوڑھ کر بھی سردی محسوس کرتے ہیں ،وہاں ان لوگوں میں سے بہت سے ابھی تک کھلے آسمان کے نیچے ہیں ۔کسی گھرانے کو خیمہ میسرہے تولحاف پورے نہیں۔ اگر خوراک کاانتظام ہوجاتاہے تو ادویات کم پڑجاتی ہیں۔ان کی دوبارہ آباد کاری توبہت دورکی بات ہے،اس وقت شدید سردی کے قہر سے ان کی جانیں بچانا ہمارے لیے بہت بڑامسئلہ بناہواہے۔
٭
قارئین !ہم مسلمان ایک امت ہیں ۔امت بھی ایسی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسدِ واحد سے تشبیہ دی ،جس کے ایک حصے کوتکلیف ہوتوباقی اعضا ء کو بھی قرارنہیں رہتا۔ اس وقت ہمارے بھائی بہن جس کرب واذیت اورتکلیف سے گزررہے ہیں،اس کااندازہ امدادی کیمپوں کادورہ کیے بغیر نہیں لگایاجاسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ اہلِ ہمت اپنادینی واخلاقی فریضہ سمجھ کران سے تعاون کے لیے کوشاں ہیں ۔ کچھ اپنامال خرچ کررہے ہیں اورکچھ اسے صحیح مصرف پر لگانے کے لیے سرگر م ہیں۔ مگراس کے باوجود ضروریات زیادہ ہیں اورفنڈزنسبتاً بہت کم۔اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ بلادریغ اپنے بے کس بھائی بہنوں کی امداد کے لیے آگے بڑھیں تاکہ کسی اوربیٹی کاانجام سلمیٰ جیسانہ ہو،کوئی اورباپ سمیع اللہ جیسا دکھ نہ دیکھے۔
معمارٹرسٹ جورفاہی خدمات کے حوالے سے ایک منفردپہچان رکھتاہے، آپ کے عطیات ان مصیبت زدہ مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے مستعد ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوایسے مشکل حالات میں اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین