Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

49 - 52
نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب
    ماہِ شوال شروع ہوچکاہے۔عید کی خوشیاں منائی اوربانٹی جاچکی ہیں۔ اس کے فوراً ہمارے سامنے مسرتوں کانیاعنوان مدارس میں تعلیمی سال کاآغاز ہے۔ اکثرمدارس میں شوال کے پہلے ہفتے میں نئے داخلے کھل جاتے ہیں اورشائقینِ علم کی بہت بڑی تعداد کشاں کشاں اسلام کے ان قلعوں کارُخ کرتی ہے۔ ان میں سے بہت سے وہ ہوتے ہیں جوپہلی بار مدرسہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم کے کچھ مدارج طے کرچکے ہوتے ہیں اوربہتر سے بہتر کی تلاش انہیں کسی نئی تعلیم گاہ میںلے جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان تمام ساتھیوں کے نیک ارادوں کوپوراکرے ۔طلبہ نے مدارس سے جوتوقعات قائم کی ہیں وہ بھی برآئیںاوراربابِ مدارس اس سال کے نئے داخلوںسے جو امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کی بھی تکمیل فرمادے۔آمین
   تعلیمی سال کے آغاز کے اس موقع پر راقم کچھ باتیں اربابِ مدارس سے عرض کرناچاہتاہے اوراس جرأتِ گفتارسے اگرکسی کے دل کوٹھیس پہنچے تواس پرپیشگی معذرت خواہ بھی ہے۔مقصددینی مدارس کی بہتر ی اورترقی ہی ہے نہ کہ اعتراض برائے اعتراض۔
  اس وقت دنیا جس ڈگر پر چل رہی ہے اوراسلام کے خلا ف مختلف محاذوں پر جو ہمہ گیر فکری وثقافتی یلغار تیز تر ہورہی ہے،اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے اربابِ مدارس کو سب سے پہلے اپنے اہداف کاازسرِ نوجائزہ لیناچاہیے۔کچھ اہداف تو ایسے ہیں جو اصل الاصول ہیں اوران میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ مثلاًا للہ کی رضا،جنت کا حصول ،اسلامی علوم کی حفاظت واشاعت،سنت کی ترویج،شریعت کاغلبہ ونفاذ۔مگر بعض امور ایسے ہیں جوان مقاصدتک رسائی کابہتر ذریعہ بن سکتے ہیں۔بلکہ عین ممکن ہے کہ ان تک رسائی کے بغیر ہم اپنے اصل مقاصدتک نہ پہنچ سکیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی کارکردگی اوراہداف کااحتساب کریں۔ 
   اگر مدارس کی چاردیواری میں ہماری محنت بلکہ ہماری فکر اورتوجہ کاتجزیہ کیاجائے توایسالگے گاکہ ہماری نگاہ میں عام مسلمانوں کی اصلاح کاذریعہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ علماء پیدا کیے جائیں، چاہے ان کاتعلیمی معیارکچھ بھی ہو۔دوسری طرف ہم عام مسلمانوں کوضروری علم دین سے آراستہ کرنے اور انہیںدین دار بنانے کی محنت سے بڑی حدتک لاتعلق ہیں۔ وفا ق المدارس نے ’’دراساتِ دینیہ‘‘ کی صورت میں اس کاایک اچھانظام پیش کیاہے مگرہم اس میں ویسی دل چسپی نہیں لے رہے جیساکہ اس کاحق ہے۔ اس کی جگہ ہماری توجہ دورۂ حدیث کے فضلاء کی کثرت پر ہے۔
   اگرہم ایسااس لیے کررہے ہیں کہ ہمارے خیال میں ،اس طرح آخرکار اُمت کی اکثریت عالم فاضل بن جائے گی ،اوران کے ہاتھوں ہمارے تمام علمی،فکری اورسیاسی اہداف تکمیل تک پہنچ جائیں گے ،توچاہے اسے ہم ایک اچھی توقع کہہ لیںمگر حقائق کی دنیا میں ا س کاکچھ زیادہ وزن نہیں۔
   اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس کی افزائش کی مجموعی شرح سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ جدید تعلیم کے مختلف نیٹ ورکز وسعت اختیارکررہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مدارس کے فضلاء کا اکثریت بن جانا ، ایک نیک امید کے سواکچھ نہیں سمجھاجاسکتاکیونکہ ایک حزن انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت مدارس کی فضلاء کی بہت بڑی تعدادا کی علمی استعدادقابلِ رحم ہوتی ہے۔ایسے حضرات کی بڑی تعداد فراغت کے بعدعموماًزندگی کے عام دھارے میں گھل مل جاتی ہے۔ معاشی ضروریات جن سے کسی کو مفرنہیں،انہیں بعض اوقاتمعمولی پیشے تک اختیارکرنے پر مجبور کردیتی ہیں ۔ایسے بعض مجبور فضلاء مدرسے کی زندگی میں بہت لائق فائق بھی ہوتے ہیں مگر چند برس بعدمدرسے کی کتابی ابحاث ان کے دل ودماغ سے محوہوچکی ہوتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کتابوں یاان کی کچھ ابحاث کے عنوان ہی ذہن میں رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس ماحول میں ہوتاہے ،تازہ علم یانئی معلومات اسی کے مطابق اخذکرتاہے۔ سابقہ علوم میں سے صرف وہ چیزیں یادرہ جاتی ہیں جوعمل میں آرہی ہوں ۔چنانچہ ہمارے ہزاروں فضلاء نمازروزہ اورزکوٰۃ وقربانی کے مشہورمسائل کے سوادیگر فقہی مسائل سے بھی نابلد رہ جاتے ہیں۔
   توایسے میں خودبخود یہ خیال پیداہوتاہے کہ اگراتنے لوگوں پر آٹھ سال کی طویل محنت کی بجائے ، ضروری علم دین سکھانے اوردین کاداعی بنانے کی محنت کی جاتی توکئی گنازیادہ ایسے افراد تیار کرلیے جاتے جن کے پاس عقائد،تفسیر ، حدیث، فقہ کاضروری علم اورعربی تکلم کافن ہوتاتویہ لوگ زیادہ فعال ثابت ہوتے۔
  حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سال کورس کا ہدف علوم اسلامیہ کا ایساذی استعدادفاضل پیداکرناہوتاہے ، جو لغت،صرف،نحو،منطق، فقہ ،حدیث ،تفسیر اورعلم کلام سمیت ہر علم کی مزید کتب اپنے مطالعے سے حل کرسکے اورکسی بھی علم کی تدریس یاکسی بھی شعبے کے تخصص میں اسے کوئی دشواری نہ ہو۔اس ہدف کو سامنے رکھ کر جب آٹھ سال کی محنت کرائی جاتی ہے تواس دوران جان بوجھ کر ان کتب ،ان ابحاث اور ان مضامین کو نظر انداز کردیا جاتاہے جوعام زندگی میں بہت کارآمد ہیں مثلاً اسلامی معیشت، جدیدفقہی مسائل،آیات اور احادیث حفظ کرانا، میڈیاپر پھیلائے گئے اسلام سے متصادم نظریات اور باطل فرقوں کے شبہات کا جواب، تقابلِ ادیان،الغزوالفکری ،سیرتِ نبویہ ،سیرتِ صحابہ اوراسلامی تاریخ۔ انہیں یہ کہہ کرترک کردیاجاتاہے کہ ان آٹھ سالوں میں مشکل ترین قدیم درسی کتب پڑھ کرطلبہ کی استعداداتنی اعلیٰ ہوجائے گی کہ وہ جب چاہیں گے ،کسی بھی موضوع کی کوئی بھی کتاب پڑھ کراس فن کے ماہر ہوجائیں گے۔چنانچہ عام زندگی میں اسلامی لحاظ سے ہر وقت کی ضرورت ثابت ہونے والے مضامین کو غیردرسی اورغیرتدریسی ابحاث شمارکرکے نصاب میں رکھاہی نہیں جاتا۔
  مگر ہوتایہ ہے کہ جس ہدف کے لیے فضلاء کوتیار کیاجاتاہے ،دورۂ حدیث کے بعد اس پر چند فیصدہی فضلاء ہی پورے اترتے ہیں ۔یہی چند فیصدقابل حضرات مدرس یامفتی بن کر اپنے اساتذہ توقع کو پورا کرتے ہیں ۔جبکہ اکثریت جو اس نصاب کوسمجھنے کی استعدادہی نہیں رکھتی اورکسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے دورۂ حدیث کرپاتی ہے، فقط عالم کانام ساتھ لگاکر عام زندگی کے میدان میں اترنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ان کے پاس علم کی ان بڑی بڑی کتب کی محض سند ہوتی ہے جن کی پھرانہیں کبھی ضرورت پڑتی ہے نہ ہی وہ انہیں سمجھنے سمجھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی سطح تعلیم الاسلام ،زادالطالبین اور آسان ترجمہ قرآن کی حدتک ہوتی ہے۔ایسی ہی دوچارآسان ،عام فہم اورعام زندگی میں کام آنے والی نصابی کتب کاکچھ حصہ انہیں یادہوتاہے۔عمر بھر وہ اسی سرمایے سے کام چلاتے ہیں ۔ ہر شخص جانتا اور سمجھتاہے کہ تفسیر ،حدیث اورفقہی مسائل کااتنا علم ،ان بوڑھوں کوبھی ہوتاہے جوعلماء کے پاس اٹھتے بیٹھتے رہتے ہیں۔
   اس زاویۂ نگاہ سے غورکیاجائے اوراپنی آؤٹ پٹ کااحتسابی نظر سے جائز ہ لیاجائے تویقینابہتریہی ہوگا کہ ہمارے دینی مدارس کے منتظمین،درسِ نظامی سے کہیں زیادہ وفاق المدارس کے ’’دراساتِ دینیہ ‘‘ کور س یااسی جیسے کسی تعلیمی منصوبے کی ترویج کی فکر کریں۔جو طلبہ دینی علوم میں داخلہ لیناچاہتے ہیں ،ان کی استعداداورلگن کاکڑاامتحان ہوناچاہیے۔ کندذہن ،بدشوق اورغبی طلبہ کا درسِ نظامی سے کوئی واسطہ نہیں ہوناچاہیے۔بہت سے بہت انہیں ثانیہ تک چلایاجائے اوراگر ذرا بھی کمی محسوس ہو تو انہیں دراساتِ دینیہ میں منتقل کردیاجائے۔ ہمارے مخدوم حضرت مولانا محمدیحییٰ مدنی صاحب رحمہ اللہ کی عمربھر کی کوشش کاحاصل یہی تھاکہ اہلِ مدارس طلبہ کی کثرت کونہیں ،معیار کومقصود بنائیں۔جامعہ معہدالخلیل الاسلامی کے ہر مرحلے میں یہی فکر کارفرما رہی۔
 راقم کے دردِ دل کاحاصل یہی ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علماء پیداکرنے کی بجائے قابل سے قابل علماء پیداکرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔اکثر طلبہ کوجوکم استعداد ہوتے ہیں ،ضروری دینی علوم کے کورس کی حد تک رکھ کر تین چار سال میں فارغ کردینا مناسب ہوگا۔اگرکسی مدرسے سے ایک ہزار فضلاء دورے کی سند لے کرنکلتے ہیں اور ان میں سے اکثرمعاشرے پر کوئی اثر چھوڑے بغیر اسی معاشرے میں گم ہوجاتے ہیں ،تواس کاکیافائدہ!کیا اس سے بہتریہ نہیں کہ اسی مدرسے سے تیس چالیس ممتاز اور غیرمعمولی علماء برآمد ہوں جو واقعی ہمارے اکابر کے علمی وعملی معیار کے عکاس ہوں ۔کثرتِ علماء کی کوشش ترک کرنے پر ہمارے جو وسائل بچیں گے ،انہیں زیادہ سے زیادہ مسلمان بچوں ،بچیوں اور بالغان کو ضروری دینی تعلیم وتربیت دینے اور ان میں داعیانہ صلاحیت پیداکرنے پر خرچ کیاجائے جو بجائے خود اس وقت اہم ترین دینی وقومی ضرور ت ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter