سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت
ملک کی مغربی سرحدوں کے قریب واقع بلوچستان کاصوبائی دارالحکومت کوئٹہ اس سال دہشت گردی کے واقعات کاسب سے بڑاہدف رہاہے۔۲۸جون ۲۰۱۶ء کواسی کوئٹہ شہر میں فائرنگ کے دومختلف واقعات میں ۴پولیس اہلکار جا ں بحق ہوئے۔۸،اگست کوکوئٹہ سول ہسپتال کے باہر بم دھماکے میں۷۰شہری جاں بحق اور۱۱۲سے زائدزخمی ہوئے۔۱۳ستمبر کوسریاب روڈ کے پولیس ٹریننگ سینٹرکے قریب دھماکے میں ۲پولیس اہلکارجاں بحق اور۸ ،افراد زخمی ہوئے۔
مگر ان سے بڑی اورنہایت ہولناک واردات ۲۴اکتوبر کوہوئی۔شب گیارہ بجے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پرایک بارپھر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔خودکش جیکٹوں والے تین دہشت گردوں نے سینٹر میں گھس کراندھادھند فائرنگ کی۔پولیس کے۶۱جوان جاں بحق جبکہ ۱۲۲زخمی ہوگئے۔بعد میں سیکورٹی اہلکاروں کی کارروائی کے دوران پکڑے جانے کے خوف سے دوحملہ آوروں نے خود کواڑالیاجبکہ ایک کارروائی کے دوران ماراگیا۔
دہشت گردی کی اس اندوہ ناک وارادات کے ذمہ دارکون ہیں؟تینوں حملہ آوروں کے مرجانے کے بعد اس کی تحقیق مشکل ہوگئی ہے۔مگر حکومتی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کوافغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ایسے میںیہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کہ افغانستان جانے والے سراغوں کاسراکہاں تک پہنچتاہے۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹریننگ سینٹر قائم کررکھے ہیں جس کے ثبوت حکومتِ پاکستان کے پاس موجودہیں۔ان ٹریننگ سینٹرز میں ہر اس جماعت ،گروہ یا تنظیم کے افراد کوتربیت دی جاتی ہے جو پاکستان کی مخالف ہو۔پاکستان کے امن وامان کوسبوتاژ کرنے کی اس ناپاک سوچ میں بھارت اورافغان حکومت ایک ہیں۔
پاکستان کے خلاف ان دونوں ملکوں کے اشتراک کی ایک طویل تاریخ ہے جس کاآغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہوگیاتھا۔ہمیں حالات کاصحیح تجزیہ کرنے اوراس کاحل نکالنے کے لیے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ اورپاکستان کے ساتھ ان کی دشمنی کی وجوہ پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اس حقیقت کاادرا ک کرناہوگاکہ افغانستان کیوں پاکستان دشمنی میں بھارت کاساتھ دے رہا ہے۔
اس خطے کی تاریخ بتاتی ہے قیام پاکستان کی تحریک کوتوانگریزی استعمارروک نہیں سکا مگر وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے یہاں دوبڑے مسائل چھوڑگیا۔ایک مسئلہ کشمیر ۔دوسراڈیورنڈ لائن۔
تقسیم ہند سے قبل 1947ء میںجب برطانیہ نے ریفرنڈم کرایاتوجان بوجھ کر اس کاطریقِ کار ایسا رکھا جس سے آئندہ پاکستان اورافغانستان میں کبھی اچھے تعلقات قائم نہ ہوسکیں۔ افغانستان کی خواہش تھی یہ ریفرنڈم اس طورپر ہو کہ سرحد کے باشندوں سے پوچھا جائے’’ آپ افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست بننا پسند کریں گے؟ ‘‘
مگر برطانیہ نے افغانستان کی رائے نظرانداز کرتے ہوئے ریفرنڈم میں یہ سوال سامنے رکھا: ’’آپ متحدہ ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں؟‘‘
ہمارے اکابر کی کوششوں سے ریفرنڈ م میںسرحد کے پختونوں کی اکثریت نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ نے پختون علاقوںکی پاکستان میں شمولیت کونفرت کی نگاہ سے دیکھا اور برطانیہ کی واپسی کے بعد ڈیورنڈ لائن کو ناقابلِ قبول سمجھتے ہوئے صوبہ سرحد(موجودہ کے پی)پر افغان علاقہ ہونے کادعویٰ کردیا۔ پاکستان کے لیے یہ مطالبہ منظور کرنا ممکن نہیں۔اس لیے کہ ڈیورنڈلائن کامعاہدہ برطانوی حکومت سے ہوا تھا،پاکستان سے نہیں۔مسئلہ کشمیر کی طرح یہ مسئلہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان مستقل تناؤکاباعث بن گیا۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی افغانستان اورپاکستان کے تعلقات خراب ہونے کی بنیادی وجہ یہی تھی۔
بھارت نے پاک افغان تعلقات کی اس کشیدگی سے موقع بموقع فائدہ اٹھایامگر جب روس افغان جنگ شروع ہوئی تومجاہدینِ افغانستان کے بہترین معاون کی حیثیت سے وہاں پاکستان کاپلہ بھاری ہوگیا۔جہادِ افغانستان کی کامیا بی نے پاکستان کومزید سربلندکردیا۔پاکستان اورافغانستان دوبرادرمسلم ممالک کی حیثیت سے نہایت قریب آگئے۔ طالبان امارتِ اسلامیہ کے دورمیں دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی رہے۔ اس کاپوراامکان تھاکہ مسلم ممالک کے درمیان اخوت کایہ حلقہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک پھیل جاتا اورتیل گیس پائپ لائن اس خطے میں خوشحالی کے دروازے کھول دیتی۔
مگر اس سے پہلے ہی عالمی طاقتوں کی سازشوں نے افغانستان کو پھرجنگ کامیدان بنادیا۔۲۰۰۱ء سے آج تک وہاں ہر حکومت امریکا کے سائے میں قائم ہوئی ہے اوراس نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کوترجیح دی ہے۔ماضی وحال کاتجزیہ ثابت کررہاہے کہ امریکا،بھارت اورافغان حکومت اس وقت خطے میں پاکستان دشمنی کاکھیل کھیل رہے ہیں۔اس میں تیزی اس لیے آئی ہے کہ پاکستان کاامن وامان تہہ وبالاکرکے وہ یہاں سی پیک منصوبے کوالتواء میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
حددرجے قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ایسے میں جبکہ قوم کومتحدومتفق ہوجاناچاہیے ،پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنادینے پر بضد ہے جس کانتیجہ سوائے دشمن کوشہ دینے کے ،اورکچھ نہیں نکل سکتا۔
کوئٹہ کے سانحے کے بعدحکومتِ پاکستان نے اندرونِ ملک مشکوک افراد کی نگرانی کرنے اورملک دشمن عناصرکے خلاف گھیراتنگ کرنے کااعلان کیا ہے جو بلاشبہ نہایت ضروری ہے ۔مگراس ضمن میں یہ احتیاط لازم ہے کہ بے گناہ افرادزدمیں نہ آئیں ،مدارس اوردینی سیاسی جماعتوں کے کارکن پولیس گردی کی نذر نہ ہوں۔ وفاق المدارس کے اکابراوردینی جماعتوں کے قائدین سمیت ملک بھر کے تمام جیدعلمائے کرام نے کوئٹہ دہشت گری کی سخت ترین مذمت کی ہے۔ علمائے کرام ایسی گھناؤنی وارداتوں کو کھل کرخلافِ اسلام کہتے آئے ہیں۔اس جرأت کی پاداش میں کتنے علماء شہید بھی کیے جاچکے ہیں۔ایسے میں بہت ہی غلط ہوگاکہ اصل دہشت گردوںکی بجائے،ملک وقوم کے یہ وفادار شکوک وشبہات اورحراست وتفتیش کانشانہ بنیں۔قانون کے بعض محافظ حکومتی پالیسی سے غلط فائدہ اٹھاکر محض پیسے کھرے کرنے کے لیے ایسے میں بے قصورافراد کی پکڑدھکڑ شروع کردیتے ہیں۔ ان کی مٹھی گرم ضرورہوجاتی ہے مگر نتیجہ یہ نکلتاہے کہ دشمن عناصر کوکچھ اورلو گ ایسے مل جاتے ہیں جنہیں وہ ملک کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اصل دشمنوں کوڈھونڈ کرنکالنے میں علماء پہلے بھی معاون تھے اورآئندہ بھی رہیںگے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اورحکام ،چھوٹے بڑے سب مل کر قومی سلامتی کے ہدف پر متحدومتفق ہوں۔اگر ہم اپنی صفوں میں رخنہ پیدانہ ہونے دیں تو کوئی بڑی سے بڑی سازش بھی ہماراکچھ نہیں بگاڑسکتی۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اس نازک وقت میں ہمیں صحیح فیصلے کرنے اوردرست اقدامات کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔