شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف
شام کے شہر حلب کے دوہسپتالوں پر روسی طیاروں کی بمباری…درجنوں مسلمان شہید…بیسیوں زخمی…ایک اوردردناک خبر …ایک اورالم انگیز واقعہ…خونِ مسلم کی یہ ارزانی آخرکب تک رہے گی…روس کہتاہے کہ بمباری اس نے نہیں ،امریکانے کی ہے…امریکاکہتاہے ،یہ روس کی حرکت ہے…ڈاکوؤں کے دوگروہ ہیں…دونوں لوٹ رہے ہیں …جی بھر کے معصوم جانوں کوتاراج کررہے ہیں …الزام اپنے سرکوئی نہیں لیتا…ضرورت بھی کیا ہے مفت میں اپناجرم ماننے کی…ان پرکونسا دباؤہے …مسلمان ناراض ہوں تو ان کاکیا بگڑتاہے …ان کاکون سا اقتصادی محاصرہ ہوجائے گا…ان کے کونسے بینک اکاؤنٹس بند ہوجائیں گے…یاانہیں اقوام متحدہ کی رکنیت سے خارج کردیاجائے گا…یاان کے خلاف نیٹو جیسا کوئی اتحادبن کر ماسکو یا واشنگٹن پر بمباری کردے گا…کون ہے جس کاہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ سکے…پیروں تلے سسکنے اور بلبلانے والے لوگوں کی سسکیوں میں کچھ اوراضافہ ہوجائے گا…اس کے سواکچھ اورہوبھی کیا سکتا ہے … ایسے میں لاکھ ظلم کرو اورخود کو انصاف کاسب سے بڑاعلم بردار،امن کاترجمان ،مظلوم قوموں کانجات دہندہ کہتے رہو…
روس افغانستا ن میں گھساتھا ،توبھی اس کادعویٰ یہی تھاکہ وہ افغان عوام کونجات دلانے آیا ہے۔ اس وقت بھی یہی ہواتھاکہ انسانیت سوزقتلِ عام کی ذمہ داری ،روس امریکاپر ڈال رہا تھا اور امریکا روس پر۔روسی افواج دسمبر 1979ء میں افغانستان میں گھسیں ۔افغان سربراہ حفیظ اللہ امین قتل کردیا گیا اورروس کاکٹھ پتلی ببرک کارمل صدر بن کر قوم سے یوں مخاطب ہوا۔
’’میرے بہادر ودلیر ہم وطن خواتین وحضرات! میں آپ سے اظہارِ عقیدت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے حفیظ اللہ امین کے دور میں ہونے والے ظلم وستم، جبری ہجرت، انسانیت سوز مظالم اور ہزاروں افراد کے بے رحمانہ قتل عام کا مشاہدہ کیا۔ اس کی براہِ راست نگرانی میں خوں آشام درندوں نے عوام کو قصائیوں کی طرح کاٹا کیونکہ حفیظ اللہ امین امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ یہ امریکی سامراجی نظام عوام کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے جو کہ اس کی ابلیسی حرکتوں اور فرعونی کارستانیوں سے تنگ آگئے تھے۔‘‘
اس کے بعد کیا ہوا۔ روس نے افغان عوا م پر ’’پھولوں‘‘ کی کیسی بارش کی!! ۔ روسی حملے کے پہلے سال کے اختتام پر مقتول افغانوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بڑھ گئی تھی۔ نسل کشی کے علاوہ انسانی تمدن ومعاشرت سے تعلق رکھنے والی ہر شے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، آبادیوں کو بلڈوز کردیا گیا، کنویں خراب کردیے گئے،مساجد کو شہید کردیا گیا، ہسپتالوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، دینی مدارس ویران کردیے گئے، دیہاتوں میں اسکولوں اور ان میں پڑھنے والے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1989ء میں جب روسی افواج کاانخلاء ہوا تو مقتول افغانوں کی تعداد سولہ لاکھ اورہجرت کرنے والوں کی ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی۔
اور امریکانے کیا کیا ۔حکومت طالبان کی تھی ۔انہوںنے امریکاکوگھاس نہ ڈالی تو ان کے خلاف پہلے متحارب گروہوں کواستعمال کیاگیا۔القاعدہ کی موجودگی کابہانہ بناکر میزائل داغے گئے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے نے ،ہر قسم کی کاررروائی کے لیے ’’کھلی وجہِ جواز‘‘ پیداکردی۔افغانستان سے ملّا کی حکومت ختم کرنے کے لیے صرف طالبان کے ٹھکانوں ہی کونشانہ نہیں بنایاگیا بلکہ عام شہریوں کاقتل عام بھی جاری رہا۔ ہسپتال، شادی اورجنازوں کے اجتماع بمباری کاہدف بنے۔کتنے بے گناہ اب تک قتل ہوچکے ہیں ۔کتنے گھر،کتنے دیہات اوربستیاں ویران ہوئے ۔کسی کوکیا غرض۔
امریکااورروس شام میںبھی یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ داعش توالقاعدہ کی طرح محض ایک بہانہ ہے۔ ایسے بہانے انہیں ہرجگہ چاہییں ،جن کی آڑ لے کروہ مسلم دنیاکو بارباربلڈوز کرتے رہیں۔
اسلامی دنیا کو شام کی صورتحال کافوری نوٹس لیناہوگا۔شام کوا س کے حال پر چھوڑدینے کی پالیسی سب کے لیے خطرہ ہوگی۔ شام کے قضیے کواس نگاہ سے نہ دیکھاجائے کہ یہ داعش،سنی گروہوں اوربشارالاسد کی کش مکش ہے جس سے لاتعلقی ہی بہترہے۔دوسروں کے جرائم کی سزا شامی مسلمانوں کو نہیں ملنی چاہیے۔ مسلمان دنیا میں کہیں بھی ہوں ،وہ ایک قوم اورایک برادری کی طرح ہیں۔ ان میں سے ایک گھرکادکھ درد،سب کومحسوس ہوناچاہیے۔یہ توقع فضول ہے کہ روس اورامریکامل کر آج نہیں توکل ،شام میں اَمن بحال کرلیں گے۔شام کاحال بالکل ویساہوچکاہے جیسا 1992ء تا94ء افغانستان کاتھا۔ اورشاید آگے چل کرصورتحال کہیں زیادہ الم ناک ہوجائے ۔شام کے لوگ ملک چھوڑکرادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں مگراکثریت کوکہیں جائے پناہ نہیں مل رہی۔
روس اورامریکا چاہے ،ظاہر کچھ بھی کریں ،مگرشام کی تمام ترصورتحال کے وہ دونوں ذمہ دار ہیں۔ وہ داعش کوجیتنے دیں گے نہ کسی اورگروہ کو۔کسی مسلم خطے میں کوئی جنگ جتنا بھی طول کھینچے ،وہ اس پر خوش ہیں اوراسی میںاپنا مفاد سمجھتے ہیں۔یہ نئی عالمی جنگ کی تیاری ہے۔اس کے بہانے پیداکرنے کا منصوبہ ہے ۔اس جنگ میں زیادہ سے زیادہ مسلم ممالک کوملوث کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ عراق اور شام کوچھوٹے چھوٹے خودمختاراور متحارب ٹکڑوں میں تحلیل کرکے اس خطے کی مسلم توانائی کو درگورکرنا، اسرائیل کی بالادستی کا خواب پوراکرنا،مشرق وسطیٰ سے مشرق کی مسلم پٹی تک ،شیعہ سنی جنگ کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ شرو ع کرانا، سعودی عرب کے مشرقی علاقوں کو خودمختاری دلواکر شیعہ پٹی کاحصہ بنانا،آلِ سعود کے اختیارات محدودکرنا، اورمسلم دنیا کے ذخائرِ معدنی توانائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا…یہ سب عالمی طاقتوں کے مذموم اہداف ہیں۔
مسلم دنیا کے سیاسی ومذہبی رہنماؤں اوراربابِ اقتدارکوچاہیے کہ وہ شام میں امن کی بحالی کے لیے ایک عالمی کانفرنس بلائیں ۔جو روس اورامریکاکی اس خطے میں مداخلت پر احتجاج کرے۔ مسلم ممالک کواپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے ایک اجتماعی اورفعال پلیٹ فارم کی فوری ضرورت ہے۔
٭٭