Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

31 - 52
عید کامقصد
یہ عید کادن ہے۔لوگ غسل کرکے نئے کپڑے پہن رہے ہیں۔خوشبولگارہے ہیں۔پورے مہینے کے معمول کے بالکل برخلاف آج نمازِفجر کے بعدناشتہ بھی کررہے ہیں۔رمضان کے دنوںسے فرق  واضح ہورہاہے۔
تکبیرات ِعید’’اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَرلَاالٰہَ اِلَااللّٰہُ واللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَرولِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘کاحمدیہ ترانہ زیرِلب پڑھاجارہاہے۔ لوگ عیدگاہوں کی طرف چلے جارہے ہیں۔نمازِ عید اداہورہی ہے۔ ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوچکاہے۔ہر طرف مسرت ہے ۔ شادمانی ہے۔ہر چہرے پر تبسم ہے۔
ہر سال ہم اس طرح عید مناتے ہیں مگر کبھی ہم نے سوچاکہ یہ عید کیوں منائی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکودوعیدیںعطافرمائی ہیں۔پہلی عیدالفطرجورمضان کے روزے رکھنے کی مسرت میں نصیب ہوئی ہے۔ دوسری عیدالاضحیٰ جوقربانی کی سنت کوزندہ کرنے کے لیے ایام حج میں  منائی جاتی ہے۔ دونوں عیدیں مذہبی رنگ لیے ہوئے ہیں۔دنیاکی باقی قومیں اپنے تہوارنفس کی عیاشی ،موج مستی اوردھماچوکڑی کرکے مناتی ہیں۔ناچ گانا،شراب نوشی ،آتش بازی، اچھل کود اور بے ہنگم رقص کرکے مسرت کااظہار کیاجاتا ہے۔ایسے ہنگاموںمیںانسانی جانیں بھی ضایع ہوجاتی ہیں۔خوشی کے اظہار کے یہ طریقے غیر عقلی اورغیر اخلاقی ہیں جن میں منہمک ہوکر انسان حیوانیت کی سطح پرپہنچ جاتاہے۔ اسلام غم اورخوشی دونوںمیں اعتدال کے ساتھ انسان کوسلامتی کی راہ پرلے کرچلتاہے۔ پس اسلام نے عید کوبندگی کاعنوان بنادیا،انسان کوخوشی کی حالت میں ،خوشیاں دینے والے خالقِ ارض وسماء کے سامنے سرجھکاکر حقیقی مسرت سے آشناہونے کاراستہ بتادیا۔
عید خوشیوں کادن ہے۔محبت ومواسات کادن ہے۔ان خوشیوں میں معاشرے کے ناداراورمستحق افراد کی شرکت بہت ضروری ہے۔اس لیے صدقہ فطر واجب کیاگیاہے۔اگر سب لوگ اپنی زکوٰۃ اورصدقہ فطر اداکرنے کامعمول بنالیں تو اسلا می معاشرے میں کوئی فاقہ کش ڈھونڈے نہ ملے۔گھروالوں کاپیٹ بھرنے میں ناکامی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے اور دوانہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ کرمرجانے کے الم ناک واقعات رونما نہ ہوں۔
ہمارے معاشر ے کاچلن بڑابے رحمانہ ہے۔ ہمار ی عید بھی اسلامی طرزِ معاشرت کانمونہ نہیں رہی۔ ہماری زندگیوں میں سنتوں کوترک کرنے اوراسلامی اخلاق سے بے گانگی کارویہ بہت عام ہے۔ عید بھی اس رویے سے خالی نہیں ہوتی۔
عید سے کئی دنوں بلکہ ہفتوں پہلے عورتوں اوربچوں کاجم غفیر مع مردصاحبان کے ،بازاروں پر ٹوٹ پڑتاہے۔ایک نہیں کئی کئی جوڑے بنائے اورخریدے جاتے ہیں۔ ہر چیز نئی لی جاتی ہے۔ایک ایک فرداپنے بننے سنورنے پر ہزاروںخرچ کرڈالتاہے۔
مگر اسی معاشرے میں وہ یتیم بھی ہیں جن کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والانہیں۔و ہ کچراچن کر یا بے گارمیں محنت جھیل کرایک وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔اسی معاشرے میں وہ بیوائیں بھی ہیں جواپنی عزت کی حفاظت کرنااوروقارسے جیناچاہتی ہیں مگرانہیں انسانی اخلاق سے گرے ہوئے سلوک کاسامناہر قدم پر ہوتاہے۔ اسی معاشرے میں وہ بوڑھے بھی ہیں جنہیں سہارے کی ضرورت ہے مگر کوئی ان کاسہارابننے کے لیے تیارنہیں۔
آخر کوئی یہ بوجھ اپنے سرکیوں لے!ہر ایک کو دنیا میں جنت کے مزے لینے ہیں۔ ہم میں قناعت ختم ہوچکی ہے۔ ہم میں سے ایک فرد کی خواہشات اتنی ہے کہ قارون کی دولت انہیں پوراکرنے سے قاصر ہے۔
للہ!اس ذہنیت کوبدلیے۔ دوسروں کے لیے جیناسیکھئے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ یہی روزے کا مقصدہے کہ ہم قربانی اورمحنت وریاضت کی زندگی جیناسیکھیں۔ہم فضول خرچی کرکے عید پر لاکھ چمکیں دمکیں ،شاید اگلی عید ہمیں نصیب نہ ہو۔ ہمارے مرتے ہی دنیاوالے چاردن میں ہمیں بھلادیں گے۔ ہمارابیش قیمت فاخرانہ لباس ہمیں کوئی ممتازحیثیت دلاسکتاہے نہ ہماری آرائش وزیبائش ۔دنیا میں نیک نامی ہویاآخرت کی کامیابی ۔ راستہ ایک ہی ہے کہ اسلامی اخلاق کوہم اپناشعاربنالیں۔
عید اسی اخلاق کوزندہ کرنے کادن ہے۔ آج ہم روٹھے ہوئے کو منالیں۔ جن کاکوئی حق ہے ،وہ اداکردیں۔اداکرنا ممکن نہ ہوتوپاؤں پکڑ کرمعاف کرالیں۔آج ہم غریب کوعزت دیں۔آج ایک دن بلکہ ایک وقت کے لیے ہی سہی،اپنے نوکر،اپنے ڈرائیور،اپنے باورچی کوساتھ بٹھاکرعمدہ کھاناکھلادیں۔ا ن کے بیوی بچوں کے لیے کھاناپارسل کردیں۔ اپنے دس دس سوٹوں کاہدف کم کرکے ،ان بے چاروں کو ایک ایک سوٹ مہیاکردیں۔
ہماراوطن اس وقت لہولہان ہے۔ لوگ پریشان ،بے کس اوربے آسراہیں۔ سیلاب زدگان ، زلزلہ زدگان  اورقحط سالی کے متاثرین یہاں کم نہیں ۔تھر والوں کاکیاحال ہے۔ بدین کے دیہاتی کن غموں سے گزررہے ہیں۔ملک کے ہزاروں گاؤں اسکول ،ہسپتال اورمیٹھے پانی کے کنوؤں سے محروم ہیں۔وہاں معلم ِ قرآن ہے نہ وضوکاانتظام۔ان کی خبرگیری کون کرے گا۔معمار ٹرسٹ کے جوانوں جیسے معدودے کچھ لوگ ایسے کھٹن محاذوں پرسرگرم ہیں۔ ان سے تعاون بھی توہمارے ہی ذمے ہے۔ اگر ہم اپنی ان ذمہ داریوں کواداکردیتے ہیں توپھر واقعی ہماری عید عید کہلانے کی مستحق ہے۔کیوںکہ یہی عید کاپیغام اوریہی اس کامقصد ہے۔
  آخر میں ایک اہم بات۔اکثردیکھاگیاہے کہ عید کی نماز میں بچوں کوہم ساتھ تولے جاتے ہیں مگر انہیں نمازکاطریقہ سکھاتے ہیں نہ اس دن کی دینی اہمیت سے آشناکراتے ہیں۔کیاہی اچھاہوکہ عید سے دوتین دن پہلے ہی ہم بچوں کونمازعید کاطریقہ عملی مشق کے ذریعے سکھادیں اوربچوںکویہ بھی بتادیں کہ یہ کونسی نمازہے اورکیوںپڑھی جاتی ہے۔بچوں کو اہتمام کے ساتھ نمازِعید کے لیے ساتھ لے جاناچاہیے کہ تاکہ  وہ بھی اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی اجتماعیت کانظارہ کریں۔بچپن کے یہ تاثرات ساری زندگی ذہن پر نقش رہتے ہیں۔
24-06-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter