Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

20 - 52
پاک بھارت تعلقات
    25دسمبر کومسٹر مودی کی اچانک پاکستان تشریف آوری کے بعدبعض حضرات کوایسامحسوس ہورہاتھا کہ پاک بھارت تعلقات میں خوش آئند پیش رفت ہونے والی ہے اوروہ بھی غیرمعمولی حدتک۔ مگر 2جنوری کو پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد بھارتی کی بیاناتی توپوں کارُخ ایک بارپھر پاکستان کی طرف ہوچکاہے اورپورے وثو ق سے کہاجارہاہے کہ حملے میں پاکستان ملوث ہے۔اس طرح مسٹر مودی کے اچانک دورے سے جو خام توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ بہت جلد دم توڑگئیں۔
     حقیقت یہ  ہے کہ پاک بھارت تعلقات کافریم ،مثبت ہویامنفی ،ایساوقتی،سطحی اورکمزورنہیں کہ کسی کے غیرمتوقعہ دورے سے  اس میں کوئی خوش آئند پیش رفت ہو،یا پٹھان کوٹ جیسا واقعہ اسے انتہائی ابتر حالت تک لے جائے۔ 
  پاکستان اوربھارت جنوبی ایشیا میں ہندوااورمسلم مذہب وثقافت کے دونشان ہیں۔ہمالیہ سے سری لنکا اورسُندر بن سے دریائے سندھ کی وادی تک پھیلاہوایہ تحتی براعظم ،ایک ہزاربر سے ایسی دوقوموں کا مشترکہ مسکن رہاہے ،جن کی ایمانیات، مذہب، ثقافت ،وضع قطع اوراخلاق ومعاشرت کے زاویہائے نگاہ میں ایک سو اسی ڈگری کافرق ہے۔
 مسلمانوںکی آمد سے پہلے برصغیر چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں میں بٹا ہوا تھا جن میں عدل وانصاف، اخوت ومساوات اورعلم وتحقیق کانام ونشان بھی ڈھونڈے نہیں ملتاتھا۔ محمد بن قاسم،محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری جیسے مجاہدو ںنے جذبۂ جہادسے سرشار ہوکر یہاں ظلم وجبر کے سومنات منہدم کیے۔انہوںنے اس اندھیر نگری میں ایسااُجالاکیاکہ برصغیر کے لوگ انہیں اپنا نجات دہندہ ماننے لگے۔ خاندانِ غلاماں ،تغلق، خلجی اورآخر میں مغلوں کادورِ حکومت گواہ ہے کہ مسلمانوںنے بطورِ حکمران کبھی مذہبی تعصب کابرتاؤروانہیں سمجھااوراسلامی تعلیمات کے عین مطابق غیرمسلموں کو وہ تمام حقوق دیے جو انسان ہونے کے ناطے انہیں ملناواجب تھا۔
   مسلمانوں کے اس حسنِ سلوک کانتیجہ تھاکہ جب حکومت ان کے ہاتھوں سے گئی ،اوربرطانوی ہند میںمسلمان عام شہری بن گئے ،تب بھی برصغیر میں مسلمانوں اورہندووں کے درمیان،اپنے تمام تر مذہبی وسماجی اختلافات کے باوجود، عمومی سطح پر اچھے تعلقات رہے ۔
1857ء کی جنگ ِ آزادی ہویاتحریکِ ریشمی رومال ،ترکِ موالات ہویا  ہندوستا ن چھوڑدوتحریک ، ہندو اور مسلم سیاست دان مل کر برطانوی سامراج کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔
 مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جنگِ عظیم اوّ ل کے کچھ عرصے بعد پوری دنیا میں غیرمعمولی تبدیلیاں آناشروع ہوئیں ۔جنگِ عظیم تک دنیا میں ایک اسلامی سپر پاورموجودتھی یعنی خلافتِ عثمانیہ ۔جس نے جرمنی کے ساتھ مل کر برطانیہ ،فرانس ،روس ،امریکااورجاپان کاجاں توڑ مقابلہ کیا۔ 
1918ء میںجنگ عظیم ترکی اورجرمنی کی شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ،جس کے بعد یورپی اتحاد نے ترکی پر قابوپاکر اس کے حصے بخرے کردیے ۔یوں مسلمان چودہ صدیوں میں پہلی بار اس پوزیشن پرآئے کہ عالمی سطح پران کا کوئی ایک بھی مضبوط وفا ق باقی نہ رہا۔ 
جنگ ِ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا اوروہاں لینن کی قیادت میں سوویت یونین کادیوتشکیل پایاجس نے چندسالوں میں وسطِ ایشیا کی تمام اسلامی ریاستوں پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔یہ وہ ریاستیں تھیں کہ اگر برصغیر میں کوئی اسلامی حکومت قائم ہوجاتی اوروہ افغانستان کے ساتھ اشتراک کرلیتی تو ان تمام ریاستوں سے اتحاد کی صورت میں خلافتِ عثمانیہ کا متبادل وجود میں آسکتاتھا۔اس امکان کو ابھرنے سے پہلے ہی ختم کردیاگیا۔ 
   جنگ عظیم اول کے فوراً بعد ہندوستان میں شدھی اورسنگھٹن جیسی انتہاء پسند ہندوتنظیمیں کھڑی ہوئیں اورانہوںنے ہندومسلم منافرت کازہر اس تیزی سے گھولا کہ جگہ جگہ فسادات شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ گاندھی جی جو بظاہر مسلمانوں کوساتھ ملاکر چلنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے تھے،شدت پسند ہندوؤں کی قوت کونظر انداز نہ کرسکے اوران کے گردایسے لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہونے لگی اور تعصب وتشدد کے ہلاکت خیز جھکڑ چلنے لگے۔ یہ وہ صورتحال تھی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں وہ اپنے عقیدے ،ثقافت اوراقدار کومحفوظ رکھ کر اطمینا ن کی زندگی بسر کرسکیں۔ مسلسل خانہ جنگی سے بچنے کا یہی واحد راستہ رہ گیاتھا۔یہی دوقومی نظریہ تھا جس کی بنیاد پر بھارت اورپاکستان دوالگ ملک بنے۔
   چونکہ ہندو سیاست دان مسلمانوں کواقلیت سے زیادہ حق دینے کے لیے تیارنہیں تھے اوروہ برطانوی سامراج کے رخصت ہونے کے بعد مسلمانوں پر پوری طرح راج کرناچاہتے تھے،اس لیے پاکستان کا قیام ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی بھارتی سیاست دانوں نے اسے دل سے قبول نہیں کیا۔اسی لیے ہمیں 1948ء،1965ء اور1971ء کی جنگیں لڑنا پڑیں۔ سیاچن کامحاذ ہویاکارگل کی لڑائی،سب کے پیچھے بھارت کاجنگی جنون کارفرماتھا ۔
   پاکستان میں لاکھ برائیاں اورخرابیاں سہی مگر ہمیںاس پر فخر ہے کہ سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد پاکستان کی فوج ،دنیا کی وہ واحد مسلمان فوج ہے ،جس نے اپنی سرحدوں پر بیٹھے ایک کئی گنا بھاری دشمن کو ہمیشہ لگام دی ہے۔ 1971ء کی جنگ کے سوا، اسے کبھی پسپائی نہیں ہوئی۔پاک بھارت تعلقات کے پیچھے دوطرفہ طاقت کاتوازن کام کررہاہے۔بھارت کو جہاں یہ محسو س ہوتاہے کہ پاکستان میں داخلی وخارجی طورپرامن وامان اورسرحدی سلامتی کاتوازن بگڑرہاہے ،وہ جنگ کے بہانے پیداکرنے لگتاہے ۔جہاں وہ پاکستان کے قدم مضبوط محسوس کرتاہے، مذاکرات اوردوستی کا ڈول ڈال دیتاہے۔ دورنہ جائیں ،صرف جنرل پرویز مشرف کے دورسے آج تک کی تاریخ دیکھ لیں تو تعلقات کے مدوجزرکی ایک طویل رودادمرتب ہوسکتی ہے۔ نریندر مودی کی سرکار کابرسراقتدار آنا ، درحقیقت بھارت میں ہندوتواکی فتح تھی اورشدت پسند بھارتی سیاست دان مودی کوپاکستان کافاتح بھی تصور کرنے لگے تھے،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ مودی سرکار نے بھارتی عوام کی اکثریت کو داخلی امن وامان ،صنعتی ومعاشی ترقی اورنچلی سطح پر بنیادی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے سخت مایوس کیا ہے، اور مودی سرکارکی ساکھ گزشتہ چند ماہ میں بری طرح گری ہے۔ 
   پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے جیسے واقعات کو مودی سرکاراپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کررہی ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے تجربات پہلے بھی بارہاکیے جاچکے ہیں جو بالکل بے سود رہے ہیں۔
   اس وقت ضرورت اس بات کی ہے بھارتی سرکار،حقائق سے آنکھیں چار کرے اوراس خطے میں ’’جیو اورجینے دو‘‘ کی پالیسی کوتسلیم کرلے۔ دوسری طرف جب تک مودی جیسے لوگ بھارت میں برسرِ اقتدارہیں پاکستان کو سخت حزم واحتیاط کی ضرور ت ہے۔ ہمارے لیے اپنی سرحدوں کے تحفظ اورداخلی دفاع پر نگاہ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے،کیونکہ بھارتی ایجنسیوں کے کابل حکومت کے ساتھ مل کرپاکستان میں مرکزگریز قوتوں کی پشت پناہی کرنے کے قوی شواہدموجودہیں۔ موجودہ حکومت ، چین کے اشتراک سے جس معاشی انقلاب کی کوشش کررہی ہے ،و ہ بھی پاکستان کے دشمنوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ہم  پاک بھارت تعلقات کے بگاڑ کے حق میں ہیں ،نہ بھارت پر اعتماد کے حق میں ۔ ہمیں بھارتی پروپگینڈے سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت کی سفارتی عشوہ طرازیوں سے۔ بھارت سے تعلقات میں’’سوء الظن حزم ‘‘(بدگمانی ، احتیاطہے)کی تعلیم کوپیش نظر رکھنا ہی ہمیں صحیح فیصلے کرنے میں مدددے سکتاہے۔
12-01-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter