نیاہجری سال
لیجئے،پتابھی نہ چلااورسال ۱۴۳۷ھ رخصت ہوگیا۔ہم نئے ہجری سال ۴۳۸اھ میں داخل ہو رہے ہیں۔گزشتہ سال کے آغاز میں ہم کہاں تھے ؟ اورسال ختم ہونے پر اب ہم کہاں ہیں؟انفرادی طور پرکیافرق پڑااوراجتماعی طورپر ہم نے کہاں سے کہاں تک سفرکیا؟
کیاہم اس کاحساب لگاسکتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے کاروبار اورآمدن کے سالانہ نفع و نقصان کاحساب لگاتے ہیں۔ چلیے باقاعدہ حساب نہ سہی، ایک سرسری جائزہ توضرورلیناچاہیے۔
سال ۱۴۳۶ھ کے اختتام اور۱۴۳۷ھ کے آغاز پر ہم دینی لحاظ سے کیسے تھے اوراب کیسے ہیں؟ ہم نمازوں کی پابندی کررہے تھے یانہیں ۔اوراب کس حدتک کررہے ہیں۔ کیاہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پورے سال کی پنج وقتہ نمازوں میں سے جن کامجموعہ لگ بھگ ۱۸۰۰بنتاہے،ہم نے کتنی تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھیں،کتنی نمازیں بلاجماعت اورکتنی قضا ہوئیں۔
دین کے اورکون سے ارکان ہیں جن میں کوتاہی ہورہی ہے۔ کیاہماری گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ برابر اداہوتی آرہی ہے ۔صدقاتِ واجبہ میں سے کچھ ہمارے ذمے تونہیں رہ گیا۔کیاحج ہم پرفرض ہے اورہم اسے ٹالتے آرہے ہیں؟
کیا ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیںکہ پورے سال میں ہم سے مالی حقوق کتنے ادااورکتنے ضایع ہوئے۔ سال ۱۴۳۶ھ کے اختتام پر کس کس کاقرض باقی تھاجوسال گزرنے پر بھی جوں کاتوں ہے۔ہم نے اس کی ادائیگی کی کیاکوشش کی ؟بہنوں ،بھائیوں ،اوردوستوں میں سے کسی کاکوئی حق ایساتونہیں جومسلسل ہمارے سر پر ہو،اورہم سال بسال اس سے لاپرواہی اختیارکیے ہوئے ہیں ؟
اپنے دینی علم کابھی جائزہ لیناچاہیے۔ سالِ گزشتہ ہمیں کتنی آیات یادتھیں،کتنی احادیث یاد تھیں۔ان کے ترجمے اورمطلب سے ہم کس حدتک آگاہ تھے۔پورے سال میں اس ذخیرے میں کتنا اضافہ ہوا۔اس سال ہم نے کتنے دینی مسائل سیکھے۔ علماء کی کون کون سی کتب خرید کر پڑھیں۔ کون سے دوستوں سے لے کرگھر میں رکھیں اوراب تک واپس نہیں کیں۔ اورکس کس کی کون کون سی چیز ہے جو گھر کے کسی کونے ،کسی الماری ،کسی دراز یاکسی اورجگہ پڑی ہے جواسے واپس کرناہم بالکل بھول چکے ہیں۔اسی حالت میں موت آگئی تومعافی کی کوئی صورت نہیں۔
یہ بھی دیکھ لیناچاہیے کہ ہم نے اپنی اولاد اورگھروالوں کی تعلیم وتربیت میں کتنی ترقی کی۔بچے تعلیم میں کس حدتک آگے گئے۔ اخلاقی لحاظ سے وہ بہتر ہوئے یا بگڑے۔اگر خدانخواستہ بگاڑ ہے توہم اس کی اصلاح کے لیے کیا کرچکے ہیں اورکیا کرناچاہیے جس کی ہماری مصروفیات نے پورے سال اجازت نہیں دی اوراگر کوئی فیصلہ نہ کیاگیاتویہ دوسراسال اورپھراگلاسال بھی اسی طرح گزرجائے گایہاں تک کہ وہ ان کی اصلاح کاوقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
یہ توہوا انفرادی جائزہ ۔اب یہ بھی دیکھ لیاجائے کہ اُمت مسلمہ ایک سال میں کہاں سے کہاں پہنچی۔
افغانستان میں جنگ ویسے ہی جاری ہے۔ شام بدستورمقتل بناہواہے۔عراق کے حالات میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی۔ یمن میں سعودی عر ب اورایران کی کش مکش کم ضرورہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔پاکستان کے چین سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں جبکہ بھارت سے سخت کشیدگی چل رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی کی شدید مخالفت کے باوجودیہ سال بھی پوراکرلیاہے اوراب باقی ڈیڑھ سال پوراکرکے اگلے انتخاب میں اپنا مینڈیٹ برقراررکھنا اس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ہم پاکستانی مسلمانوں کے لیے اس وقت بہت بڑی آزمائش یہ ہے کہ ہم کس طرح اس مملکتِ خداداد کی نظریاتی اساسوں اورجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرکے دکھاسکتے ہیں؟ہر کسی نے اپنی صلاحیت اوراستعداد کے مطابق ایشیا میں مسلمانوں کے اس حصار کے تحفظ کے لیے جدوجہدکرنی ہے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اس تحریر کواپنی تاریخ کے ایک دلچسپ واقعے پر ختم کرتاہوں۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات پرفتوحات ہوئیں تومدینہ منورہ کے مرکزی دفتراورصوبوں کے ذیلی دفاتر میں مراسلوںاور دستاویزات کا انبار لگ گیا۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیاکہ کون سی تحریر کس تاریخ کی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفردمیںنقل کیاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط آیاجس پرصرف شعبان لکھا تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کونسے سال کاشعبان ہے۔آ پ نے صحابہ کرام سے فرمایا:لوگوںکے لیے کوئی وقت مقررکردو،جس سے وہ تاریخ شمارکیاکریں۔
بعض نے کہا: اہل روم کی تاریخ اختیارکرلی جائے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا : رومیوںکی تاریخ کاشماربہت طویل ہے،وہ سکندرکے دورسے شمارکرتے ہیں۔
کسی نے کہا: اہل فارس کی تاریخ اختیارکرلیں۔
آپ نے فرمایا: ان کے ہاں ہربادشاہ کی تخت نشینی پرتاریخ نئے سرے سے شروع ہوتی ہے۔
آخریہ طے پایاکہ اپنی الگ تقویم رکھی جائے۔ اب سوال اُٹھا کہ کب سے؟
تین آراء سامنے آئیں، حضوراکرم ﷺ کی ولادت سے… ہجرت سے …وفات سے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:
’’ہجرت سے تقویم کاآغازکیاجائے کیونکہ اسی سے حق وباطل کے درمیان فرق ہوا۔‘‘
جب صحابہ کرام کی مشاورت میںیہ فیصلہ ہوگیا کہ اسلامی تاریخ کو حضورنبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے شروع کیا جائے گا تو اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ کس ماہ سے؟…
چونکہ ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی اس لیے بعض کی رائے اسی مہینے کو ہجری سال کا آغاز قرار دینے کی تھی۔بعض نے ماہ رمضان کی فضیلت کی بناء پر اس کا مشورہ دیا مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا:’’محرم سے تقویم شروع کی جائے کہ یہ حرمت والامہینہ ہے۔یہی سال کاپہلامہینہ ہے۔اس میں لوگ حج سے لوٹتے ہیں۔‘‘ان کی رائے کوسب نے بہترسمجھااورفیصلہ ہوگیاکہ سال ہجری محرم سے شروع ہوگا۔یہ واقعہ سن ۱۷ یا ۱۸ ہجری کا ہے۔یہ ہجری تقویم کاآغازتھاجواسلامی تاریخ نگاری کابنیادی پیمانہ ہے۔آج ہم اس ہجری سنہ کے ۱۴۳۷برس گزارچکے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ سنہ ۱۴۳۸ھ ہمارے اورپوری امت کے لیے برکتوں ، رحمتوں اورعنایتوں کاذریعہ بنے ۔ہماری شامتِ اعمال ہمیں مزید مصائب میں مبتلانہ کرے۔ ہم اللہ سے عافیت، بخشش اورمغفرت مانگتے ہیں اوراس کی ناراضی سے اسی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔