Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ ضرب مؤمن ۔ 2016

10 - 52
دیر نہ کریں
    برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے نظام تعلیم کوتہس نہس کرنے کواپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اس تحتی براعظم کے طول وعرض میں مسلمان بادشاہوں ،نوابوں اوررؤساء کی سرپرستی میں چلنے والے سینکڑوں مدارس قائم تھے۔ان مدارس میں دینی اورعصری دونوں قسم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دینی علوم میںصرف ونحو،عربی لغت وادب کے ساتھ تفسیر، فقہ ،حدیث نیزاصولِ فقہ واصولِ حدیث کے علوم سکھائے جاتے تھے۔عصری علوم میں منطق، فلسفہ ،فلکیات ، ہندسہ ،جیومٹری،علم تعمیرات(انجینئرنگ) طب(میڈیکل)اوردواسازی سمیت طلبہ کی دلچسپی اورپسند کے مطابق مختلف  قسم کے ہنر سکھائے جاتے تھے۔انہی مدارس سے جہاں حضرت مجددالف ثانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اورحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے اکابر نمودارہوئے ،وہاں انہی مدارس کے پڑھے ہوئے لوگوںنے تاج محل جیسے بے مثال تعمیراتی شاہکاربھی پیش کیے۔
  انگریز نے آکر اس نظام کہن کوبدل ڈالا۔اپنی تعلیم رائج کرنے سے پہلے اس نے قدیم نظام تعلیم کی آبیاری کرنے والے اقتصادی سرچشموں کو بند کیا۔ مدارس کی سرپرستی کرنے والی بادشاہتیں ختم کردیں۔بڑے بڑے نوابوں کے تخت الٹ دیے۔ مدارس کے لیے وقف لاکھوں ایکڑ زمینیں سرکاری املاک قراردے دیں ۔پھر ان کاکچھ حصہ حسبِ موقع ملک وملت کے ان غداروں کو بطورجاگیر دے دیاجنہوںنے جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء جیسے پرآشوب حالات میں تختِ سامراجیت کو بچانے کے لیے اپنی خدمات مہیاکی تھیں اورانگریز سرکار کوخوش کرنے کے لیے مسلم زعماء کی جاسوسیاں کی تھیں ۔صرف مدارس کاسلسلہ ہی ختم نہیں گیا بلکہ علماء کو بھی چن چن کرختم کیاگیا۔ جنگ آزادی کے بعد صرف دہلی میں پھانسی دیے جانے والے علماء کی تعداد۱۰ہزار تھی ۔دہلی کی سڑکوں کے ہردرخت پر کسی نہ کسی عالم کی لاش لٹک رہی تھی۔
  جب جنگ کی راکھ ٹھنڈی ہوئی اورپکڑ دھکڑ کامعمول بند ہواتوموقع سے فائد ہ اٹھاکر انگریز قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے علمائے کرام نے اپنے اپنے علاقوں میں خودکفالتی نظام کے تحت درس کے حلقے شروع کیے۔ دوآبے میں دارالعلوم دیوبند اورمظاہرعلوم سہارنپور جیسے مدارس قائم ہوئے۔ ان  کی آمد ن کاساراانحصار مسلمانوں کے چند ے پرتھا۔مسلمان ماؤں بہنوںتک نے ان مدارس سے تعاون کو دین کی بقاء کاذریعہ سمجھااوران سے تعاون میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
  اللہ نے اس سلسلے میں ایسی برکت دی کہ مسلمانوں کے چندے پر قائم مدارس کاایک سلسلہ تیزی سے پھیلتاچلاگیا۔ تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں تیزی سے کئی بڑے دینی مدارس قائم ہوئے ۔ اب یہ سلسلہ اس حدتک پہنچ چکاہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں متعدددینی مدارس موجود ہیں جہاں دورۂ حدیث تک تعلیم ہوتی ہے ۔بہت سے مدارس میں تخصص کے شعبہ جات بھی قائم ہیں۔
ا ن مدارس کاقیام ،انتظام وانصرام اوران میں جاری علمی سرگرمیاں یقینا علمائے کرام اورطلبہ کے دم سے ہیں مگر انہیں توانائی فراہم کرنے کاساراسہراعام مسلمانوں کوجاتاہے جن کی امانتیں مدارس میں استعمال ہوتی ہیں۔ زکوٰۃ، صدقہ ،فطرہ ،قربانی کی کھالیں ،رقم کفارہ اورعطیات سمیت مختلف مدات میں مدارس کو رقم ملتی ہیں ۔ اکثر مدارس کایہ حال ہے کہ مستقل رقوم فراہم کرنے والے اکادکاحضرات ہی ہوتے ہیں۔ اکثر چندہ کسی ضابطے کے تحت نہیں ملتا۔جس کے دل میں اللہ نیکی کاارادہ ڈالتاہے  ، اس کاہاتھ جیب میں جاتاہے اورچندہ مدرسے کے خزانے میں پہنچ جاتاہے۔
  رمضان کامہینہ اس لحاظ سے دینی مدارس کے لیے بڑااہم ہوتاہے کہ اسی مہینے میں اکثر لوگ اپنی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ صدقہ وخیرات کابھی زیادہ اہتمام ہوتاہے۔ ان رقوم کاایک خطیرحصہ مدارس کو پہنچتا ہے۔ایک لحاظ سے دیکھیں تو اکثر مدارس کے سال بھر کے بجٹ کازیادہ حصہ رمضان کے عطیات پر مشتمل ہوتاہے۔
   کیاخوب ہوکہ مدارس کو چندہ دینے والے حضرات اس بار ذرازیادہ اہتمام کے ساتھ اس ہدف کی طرف متوجہ ہوں اور ہر بار کے معمول سے کچھ زیادہ رقم اس نیکی کے لیے مختص کریں کیونکہ بڑھتی ہوئی گرانی میں مدارس کے حالات ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں ۔اکثرمدارس قرض میں جکڑے ہوئے ہیں،آمدن کم  ہے اور خرچے زیادہ ۔استادوں کی تنخواہیں بڑھانا بھی ضروری ہے۔ چھ سے دس ہزارماہانہ پر گزارہ کرنے والے عیال دار اساتذہ کس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں اورسفید پوشی کابھر م کس طرح قائم رکھتے ہیں ،یہ اللہ ہی جانتاہے۔اہلِ دل کو چاہیے کہ بجائے کسی مدرسے کے سفیر کی آمد کاانتظار کرنے کے ،خود مستحق مدارس کو تلاش کریں ،ان کے منتظمین سے ضروریات معلوم کریں اورپھر بڑھ چڑھ کرتعاون کریں۔
  ان دینی مدارس میں جامعۃ الرشید بھی آپ کے صدقا ت وعطیات کامستحق ہے۔یہ قارئین کا جانا پہچانا ادارہ ہے۔حضرت فقیہ العصر مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کانام ہی ادارے کا معیاربتانے کے لیے کافی ہے۔ادارے کے منتظمین کی امانت ودیانت شک وشبہے سے بالاہے۔ تمام اکابر کوان پر اعتماد ہے۔جامعہ کابجٹ لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ یہ صرف ایک مدرسہ نہیں ،دینی اداروں کاایک مجموعہ ہے جس میں درسِ نظامی، کلیۃ الدعوۃ، تخصص کے شعبہ جات،البیرونی اسکول،مدرسہ للبنات،معمار ٹرسٹ،مکاتبِ قرآنیہ ،  ہفت روزہ ضربِ مومن ،روزنامہ اسلام ،شریعہ اینڈ بزنس، حلال فاؤنڈیشن اور الماویٰ سمیت بیس سے زائد شعبہ جات کام کررہے ہیں۔سینکڑوں کارکن دن رات ایک کرکے دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ان کی کفالت کاسارادارومدار آپ حضرات کے تعاون پر ہے۔
  نیکی کے اس سیزن کوغنیمت سمجھیں کہ ایک نفلی نیکی کاثواب ستردرجے مل رہاہے۔ یہ تعاون فقط صدقہ نہیں ،صدقہ جاریہ ہوگا۔ جب تک دین کی اشاعت کایہ سلسلہ کڑی درکڑی آگے بڑھتارہے گا،آپ کااس میں پوراپور احصہ ہوگا۔دیر نہ کریں ۔قدم آگے بڑھائیں اورصفِ اول کے خوش نصیب لوگوں میں اپنانام لکھالیں۔ اللہ تعالیٰ توفیقِ عمل عطافرمائے اورماہِ رمضان کو تمام دینی اداروں کی  جملہ ضروریات کی تکمیل کاذریعہ بنادے۔آمین۔
10-06-2016
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکا کیا چاہتاہے 1 1
3 دس محرم کاسبق 2 1
4 موسمِ سرمااورمتاثرینِ حوادث 3 1
5 انتخابی نتائج اورمسئلہ کشمیر 4 1
6 حجاج کرام ۔قوم کاسرمایہ 5 1
7 پاکستان کادل 6 1
8 فنا فی القرآن 7 1
9 میرے وطن کابانکاسپاہی 8 1
10 دفاعِ حرمین 9 1
11 دیر نہ کریں 10 1
12 نیاہجری سال 11 1
13 جاپان،چین اورپاکستان 12 1
14 عیدالاضحیٰ۔مسرت کادن 13 1
15 شام پر روسی بمباری…وہی مجرم ،وہی منصف 14 1
16 سانحۂ کوئٹہ۔صحیح تجزیے اوردرست اقدامات کی ضرورت 15 1
17 اےطالبانِ علوم دین 16 1
18 پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دارکون؟ 17 1
19 آگئی چھٹیاں 18 1
20 کشمیر کاالمیہ 19 1
21 پاک بھارت تعلقات 20 1
22 کوئی ایسا دُکھ نہ دیکھے 21 1
23 یوم آزادی 22 1
24 کچھ تواحساس کریں 23 1
25 اگرتودل سے چاہے 24 1
26 جنوبی ایشیااورافغانستان ۔کیا امن قائم ہوپائے گا 25 1
27 پانامہ لیکس …کرپشن زدہ معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر 26 1
28 بھارت ۔جنگ سے پہلے شکست کے آثار 27 1
29 چورمچائے شور 28 1
30 ترے گھر میں 29 1
31 حلب کاالمیہ 30 1
32 عید کامقصد 31 1
33 احتساب کی ضرورت 32 1
34 استحکام مدارس وپاکستان 33 1
35 جنید جمشید کی رحلت 34 1
36 کراچی میں قیام امن کی نئی امیدیں 35 1
37 بے سود کش مکش 36 1
38 معجم،گوگل اورفلسطین کانقشہ 37 1
39 لاٹھی گولی کی سرکار 39 1
40 پاکستان میں راؔ کی مداخلت 40 1
41 رعدا لشمال 41 1
42 ماہِ رمضان پھر آیا 42 1
43 سالِ گزشتہ کی یادیں 43 1
44 ایک سو آٹھ سال کاسفر 44 1
45 اسوۂ حسنہ اورہمارامعاشرہ 45 1
46 رمضان اورمہنگائی کا کوڑا 46 1
47 امریکا افغانستان میں کب تک رہے گا؟ 47 1
48 ممتازاُمتی 48 1
49 نیا تعلیمی سال…اپنااحتساب 49 1
50 رمضان کے بعد 50 1
51 ٹرمپ کی کامیابی۔کیا ہونے والاہے 51 1
52 سفرِ حج ۔کل کی صعوبتیں اورآج کی سہولتیں 52 1
Flag Counter