دفاعِ حرمین
2جنوری 2016ء کوسعودی عر ب میں شیعہ لیڈر شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دے دی گئی۔ ایران نے اس پراشتعال انگیز احتجاج کیا جس کاسلسلہ یہاںتک پہنچاکہ ایران میں سعودی سفارت خانے کونذرِ آتش کردیاگیاجس کے بعدسعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے۔
اس کش مکش کودیکھ کر مجھے عالم اسلا م کی آخری سپر پاورخلافتِ عثمانیہ یادآرہی ہے جس کارسمی سقوط 1924ء میں مصطفی کمال پاشا کے ہاتھوں ہوا۔مگر اس سے بہت پہلے خلافتِ عثمانیہ کے دست وبازو قطع کیے جاچکے تھے۔ اس المیے کاآغاز انیسویںصدی عیسوی کے اواخر میں ہوچکاتھا۔خلافتِ عثمانیہ مسلمانوں کی وحدت کی علامت اورحرمین شریفین کی محافظ تھی۔ سلاطینِ آلِ عثمان کو حرمین سے جوتعلق تھا، اس کی گواہی آج بھی حرمین کاچپہ چپہ دے رہاہے۔مسجدِ نبوی کامرکزی حصہ ،گنبدخضرا،ریاض الجنۃ ،ہر جگہ عثمانیوں کی اس محبت وعقیدت کی مہک آتی ہے جوانہیں آثارِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔ حجازریلوے جوعالم اسلام کی پہلی ریلوے تھی، عثمانی خلیفہ عبدالحمیدثانی کاکارنامہ تھی۔
بیرونی طاقتیں جو انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک تقریباًپورے عالم اسلام پرقابض ہوچکی تھیں،حرمین کے محافظوں کونشانہ ٔ عبرت بنادیناچاہتی تھیں۔ان طاقتوں نے جن میں برطانیہ ،فرانس اورروس پیش پیش تھے،اندرونی عناصر کو سرگرم کرکے خلافت کوکمزورکرنے کی کوشش شروع کی۔پہلے مرحلے میں یہ ڈھنڈوراپیٹاگیاکہ سلطنتِ عثمانیہ میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ پھر انہی اقلیتوں کے ذریعے جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے کرائے گئے جن میں سرفہرست یہ مطالبہ تھاکہ عثمانی خلفاء ملک میں انتخابات کرائیں اوراقلیتوں کو حکومت میں آنے کاموقع فراہم کریں۔ نیزانہیں وہ تمام مراعات دی جائیں جویورپ کے باشندوں کوحاصل ہیں۔احتجاج کوروکنے کے لیے ترک حکومت نے جو اقدامات کیے ،انہیں ظلم وجبر اورتشددکانام دے کر اقلیتوں کومزید مشتعل کیاگیااوران کی تنظیم سازی کرکے جگہ جگہ علیحدگی پسندانہ تحریکیں اٹھادی گئیں۔ حکومت نے اس پر قابوپانے کے لیے فوجی کارروائی کی تو جواب میں یورپ کی پشت پناہی کے ساتھ آرمینیا،بلقان اوریونانی صوبوں میں بڑی بڑی جنگیں چھیڑ دی گئیں جن میں سے بعض کاسلسلہ کئی کئی سالوں تک جاری رہا۔ آخر میں بلقان ہی کا مسئلہ بارودکاوہ ڈھیر بنا جس پر پہلی عالمی جنگ شعلہ زن ہوئی ۔اس جنگ میں سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ صرف جرمنی تھاجبکہ مقابلے میں فرانس ،برطانیہ ،روس، امریکا ،جاپان ،پرتگال ،آسٹریلیااورنیوزی لینڈ سمیت تقریباً پوری دنیاکھڑی تھی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی کو چارسالہ جان توڑ لڑائی کے باوجودشکست ہوئی جس میں بڑاہاتھ اندرونی غداروںکاتھا ۔
مگر خلیفہ محمد خامس نے ہر محاذپر شکست کے باوجود حجا ز سے سپاہ کوواپسی کاحکم نہیں دیا۔ فوجی کمانڈرکہہ رہے تھے کہ اب وہاں فوج لگائے رکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ باقی ماندہ طاقت کواستنبول واپس بلاکراپنی حفاظت اب زیادہ ضروری ہے۔ مگر خلیفہ کاکہنایہ تھاکہ حرمین کی حفاظت ،اپنے دفاع سے بھی زیادہ ضروری ہے، فوج چاہے وہیں کٹ جائے مگر اسے واپسی کی اجازت نہیں ۔جب افسران نے زیادہ اصرارکیاتوخلیفہ کاجواب تھا:اگر حجاز سے فوج واپس ہوئی تومیں مسندِ خلافت چھوڑدوں گا۔‘‘
خلیفہ کاجنگ کے دوران انتقال ہوگیا۔ ترکی کے تمام علاقوں پراتحادی قابض ہوگئے ۔حسین پاشا کی بغاوت کے باعث مکہ معظمہ ہاتھ سے نکل گیا۔مگریہ بات تاریخی ریکارڈ پر ہے کہ ترک فوج جنگ کے ختم ہونے کے ایک سال بعد تک مدینہ منورہ میں مورچے سنبھالے رہی اورجب تک ان جیالوں میں تھوڑی سکت بھی باقی رہی انہوںنے اتحادیوںیاان کے ایجنٹوں کے ناپاک قدم ،خاکِ مدینہ پر نہیں پڑنے دیے۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعدیہ منظر پوری مسلم دنیا کے لیے نہایت کربناک تھا کہ حرمین شریفین برطانوی ایجنٹوں کے ہاتھ میں چلے گئے اورحجاز میں لاقانونیت کادورہ دورہ شروع ہوگیاجیساکہ یورپی طاقتیں چاہتی تھیں۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ جواس زمانے میں ہندوستان سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں مقیم ہوچکے تھے،اورسننن ابوداؤد کی شرح بذل المجہود تالیف فرمارہے تھے، اکثر فرمایاکرتے تھے کہ میری دوبڑی تمنائیں ہیں۔ایک بذل المجہود مکمل ہوجائے۔دوسری حجاز میں امن قائم ہوجائے۔نہ معلوم اس وقت کہاں کہاں اورکون کون ہستیاں اللہ سے گڑگڑاکر یہی دعا کررہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں سرزمینِ نجد سے امیر عبدالعزیز ابن سعود ایک طوفان کی طرح نمودار ہوئے اورانہوںنے برطانوی پٹھو ،شریف حسین سے جنگیں لڑکر حجاز کااقتدارحاصل کرلیا۔ یاد رہے کہ امیر عبدالعزیز بن سعود نے ،عالمی جنگ کے دوران ،برطانیہ کی مسلسل ترغیب کے باوجود ترکوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے انکارکردیاتھا اورخلافت کے سقوط تک خلفاء سے تعلقات قائم رکھے ۔
عبدالعزیز بن سعود نے پورے جزیرۃ العرب کوامن کاگہوارہ بنادیا۔ حضرت سہارنپوری سمیت ہمارے اکابر اورامت کے نامور علماء ومشائخ نے اس اسلامی حکومت کواپنی دلوں کی آواز قراردیا۔ آلِ سعود اگرچہ سیاسی مصلحتوں اوربیرونی دباؤ کے باعث اعلانیہ خلافت قائم نہیں کرسکے مگراس میں کوئی شک نہیں کہ انہوںنے عالم اسلام کے لیے ایک غیرمتنازعہ اسلامی حکومت بناکردکھائی جس میںشرعی قانون اسی طرح نافذ ہے جس طرح بنوعثمان کے ہاں تھا۔انہوںنے عالم اسلام کے ایمانی رشتے کو ارضِ حرم سے مزید پختہ کیااورعالمی سطح پر ہر آزمائش میں امت مسلمہ کے مفادات کی حتی الامکان ترجمانی کی۔ اس وقت بھی اگر مسلمانوں کاکوئی مرکزہے ،تووہ سعودی عر ب ہے جس کی دھرتی کے چپے چپے سے ہر مسلمان محبت رکھتاہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے دفاع وحفاظت کے بار ے میں اس گئے گزرے زمانے میں بھی امت مسلمہ ایک موقف رکھتی ہے ۔
اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں مغربی طاقتیں سعودی عرب کواسی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں،جس سے وہ گزشتہ صدی میں خلافتِ عثمانیہ کودیکھا کرتی تھیں۔ حرمین شریفین کے ان محافظوں کے خلاف جو داؤپیچ آزمائے گئے ،وہی آج کے خادم حرمین کے خلاف بھی آزمائے جارہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ
گزشتہ صدی میں وہ براہِ راست مرکز گریز طبقات کی پشت پناہی کررہی تھیں۔اس باروہ ایک پردے کے پیچھے چھپی ہیں ۔یہ پردہ ایک ایسے ملک کاہے جواسلامی انقلاب کادعوے دارہے۔یہ ملک اپنے ہم عقیدہ ان لوگوں کواستعمال کررہاہے ،جوسعودی عرب ،یمن ،بحرین اورشام میں آباد ہیں۔گزشتہ صدی میں حرمین کے محافظوں کے خلاف بلقان کی نصرانی اقلیتوں کواستعمال کیاگیاتھا۔ مگر اب وہ لوگ استعمال ہورہے ہیں جو بزبانِ خود اُمت کاحصہ ہونے کے دعوے دارہیں۔مگر ان کی باغیانہ سرگرمیاں بتارہی ہیں کہ وہ طاغوتی نظام کی تکمیل کی مہم کاحصہ ہیں۔
1960ء میںمشرقی سعود ی عرب کے صوبے قطیف میں پیداہونے والے شیخ النمر جنہوںنے تہران اورشام کی جامعات سے تعلیم حاصل کی اوربزعمِ خود وہ سعودی عرب کی د س تاپندرہ فیصد شیعہ آبادی کے ترجمان تھے،انہیں راتوں رات مقبولیت اسلام کی کسی علمی خدمت کی بناء پرنہیں بلکہ ان پرتشددمظاہروں کی وجہ سے ملی جن پرقابو پانے کے لیے سعودی حکومت کوکئی بارفوج کی مدد لینا پڑی۔ وہ ایران کے ایماء پر ملک میں ایسے حالات پیداکرناچاہ رہے تھے کہ بیرونی طاقتوں کو فوجی مداخلت کرنے کاموقع ملے اور سعودی عرب کے مشرقی علاقے ایک الگ شیعہ ریاست کی شکل اختیار کرلیں۔ 2009ء میں انہوںنے واضح طورپر مشرقی صوبوں کی علیحدگی کاعندیہ دے دیا۔
سعودی حکومت نے باربار کی تنبیہ کے بعدآخر 2014ء میںشیخ النمر کو گرفتارکیا اور ان باغیانہ سرگرمیوں کی پاداش میں،جن کاثبوت انٹیلی جنس کی رپورٹوں کے علاوہ خودالنمرکے اپنے بیانات سے مل رہاتھا،انہیں سزائے موت دے دی۔النمر نے جوراستہ اختیار کیاتھا،اس کے دوہی انجام ہوتے ہیں۔تخت یا تختہ۔اس پر کوئی طوفان کھڑاکرنے کاکیامطلب!
ایران اگرا لنمر کی باغیانہ حرکتوں کاپشت پناہ نہیں تھا تواسے سعودی عرب کے اس اندرونی معاملے پراس قدر سخت ردعمل کے اظہار کی کیا ضرورت تھی۔ایران کارویہ خوغمازی کررہا ہے کہ اس کاسعودی عرب میں کیاکرداراورکیا ایجنڈاہے۔
اس وقت عالمی طاقتیں سعودی عرب کواسی انجام کی طرف لے جاناچاہتی ہیں جس سے خلافتِ عثمانیہ دوچارہوئی تھی۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو سعودی عرب کی اخلاقی ،سفارتی اوربوقتِ ضرورت عسکری حمایت سے بھی ہرگزدریغ نہیں کرناچاہیے ۔یہ سعودی عرب کانہیں حرمین شریفین کادفاع ہے۔ مسلمان اگراس کے لیے بھی متحد نہ ہوئے توپھر دنیا میں ان کے باقی رہنے کاکوئی جوازنہیں ۔
18-01-2016